دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
دراصل یہ لوگ محض ترجمہ دیکھنے سے دھوکہ میں پڑگئے ، ترجمہ سے یہ سمجھے کہ مطلب یہ ہے کہ جو کام خود نہ کرے وہ دوسروں کو بھی کرنے کو نہ کہے ، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے ۔ تفسیر میں اسباب نزول سے آیات کے صحیح مطلب کا پتہ چلتا ہے ۔چنانچہ اس کا سبب نزول یہ ہے، کہ بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ کون سی عبادت سب سے زیادہ خدا کو پسند ہے تو ہم دل وجان سے اس کو خوب بجالائیں گے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ خدا کو بہت پسند ہے ۔بس یہ سن کر بعضوں کا خون خشک ہوگیا، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ ایسی باتوں کا دعویٰ یا وعدہ کیوں کرتے ہو، جنہیں تم پورا نہیں کرسکتے ۔ تویہاں پر ’’لِمَ تَقُوْلُوْنَ ‘‘سے ’’لِمَ تَنْصِحُونَ غَیْرَکُمْ‘‘(یعنی اپنے غیر کو نصیحت کیوں کرتے ہو؟) قول امری وانشائی مراد نہیں ، بلکہ قول خبری وادِّعائی (یعنی دعویٰ کرنا ) مراد ہے۔ حاصل یہ کہ آیت دعویٰ کے باب میں ہے دعوت کے باب میں نہیں ۔اس کے شان نزول معلوم ہوجانے کے بعد سمجھ میں آگیا ہوگا، کہ اس آیت کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ممانعت سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۳۰۰) غرض واجب تو دوسرے کی بھی اصلاح ہے مگر اپنی اصلاح اس پر مقدم ہے ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۳۰۰)