دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہاں اس کی ضرورت ہے کہ کسی عالم سے جو بستی میں رہتا ہو، مشورہ کرتے رہا کرو، مگر صرف اس سے پوری طرح کام چلنا دشوار ہے۔بلکہ تبلیغ عام (بطریقہ وعظ)کی بھی ضرورت ہے جو عالم ہی کرسکتا ہے ،کیونکہ بعض جگہ دیہات والوں کو کفار نے شبہات میں ڈال دیا ہے ، ان شبہات کا دور کرنا اور جواب دینا بھی ضروری ہے ، اور یہ کام ہر شخص کا نہیں ، اس لئے اس کی بھی ضرورت ہے، کہ ہر ضلع میں ایک عالم بھی مبلغ ہو، علماء اس کام کے لئے حاضر ہیں ۔اور انشاء اللہ بہت مل جائیں گے ، مگر ان سے کام لینے کی صورت یہ ہے کہ پہلے ان کے اہل وعیال کے نفقہ کابندوبست کردیا جائے ۔کیوں کہ علماء کے پاس روپیہ نہیں ہے اس وقت ہر شخص کسی نہ کسی حیلہ میں لگاہوا ہے ۔جس میں ان کو معقول تنخواہ مل رہی ہے ۔ جس سے ان کے گھر کا خرچ چل رہا ہے۔اب ان کو اس حیلہ سے چھڑا کر تبلیغ میں جب ہی لگا سکتے ہیں جب کہ پہلے ان کی تنخواہ کا انتظام ہوجائے ۔ اس کی آسان تدبیر یہ ہے کہ ہر ضلع میں ایک امیر (مالدار)یاچند امراء یا امراء وغرباء سب مل کر ایک مبلغ کا خرچہ اپنے ذمہ کرلیں ، اس صورت میں کسی انجمن یا مرکز سے کوئی واسطہ نہ ہوگا ، بلکہ مبلغ سے واسطہ ہوگا …بس سہل صورت یہ ہے کہ ہر ضلع کے مسلمان باہم مل کر ایک مبلغ اپنے ضلع کے واسطے مقرر کرلیں ، اور اس کو خود تنخواہ دیا کریں ، اور یہ کچھ مشکل نہیں ، اگر مسلمانوں کو ضرورت کا احساس ہوجائے ، اور اس کی فکر ہوجائے تو ایک مبلغ کی تنخواہ مسلمان بہت سہولیت سے دے سکتے ہیں ۔ البتہ اتنی ضرورت پھر بھی ہوگی کہ روپیہ کا انتظام کرکے مبلغ کی تجویز اور راہ عمل کی تحقیق کے لئے کسی ایک عالم کو مشورہ کے واسطے منتخب کرلو، اس کے مشورہ سے مبلغ رکھو ،اور اسی کی رائے سے تبلیغ کا طریقہ اختیار کرو ، اور مبلغ سے کہہ دو، کہ جس طرح فلاں شخص کہے اس طرح کام کرو، اگر یہ نہ ہوسکے ، توپھر جس عالم یا جس انجمن کے سکریٹری پر اعتماد ہو ، اس کے پاس رقم بھیج دواور لکھ دو کہ اس رقم سے ہمارے ضلع کے واسطے کوئی آدمی تجویز کرکے بھیج دیا