الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریائے فرات کو بیچ میں ڈال کر خیمہ زن ہوا۔ صبح ہوتے ہی فرات اتر کر بڑے سر و سامان سے لشکر آرائی شروع کیا۔ مثنی نے نہایت ترتیب سے صف درست کی، فوج کے مختلف حصے کر بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیئے۔ چنانچہ میمنہ پر مذعور، میسرہ پر لسیر، پیدل پر مسعود، والتیر پر عاصم، گشت کی فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثنی نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا۔ اور ایک ایک علم کے پاس کھڑے ہو کر کہا " بہادرو دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آئے۔ " اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردار تین دفعہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ و ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے۔ اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثنی نے دوسری تکبیر ابھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کر سکے اور کچھ لوگ جوش میں آ کر صف سے آگے نکل گئے۔ مثنی نے غصے میں آ کر داڑھی دانتوں میں دبا لی، اور پکارے کہ " خدا کے لئے اسلام کو رسوا نہ کرو" اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آ کر جم گیا۔ چوتھی تکبیر کہہ کر مثنی نے حملہ کیا۔ عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ تمام میدان گونج اٹھا، مثنی نے فوج کو للکارا کہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے۔ عیسائی سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگرچہ عیسائی ہو لیکن ہم قوم ہو۔ اور آج قوم کا معاملہ ہے۔ میں مہران پر حملہ کرتا ہوں، تم ساتھ رہنا۔ انہوں نے لبیک کہا، مثنی نے ان سرداروں کو دونوں بازوؤں پر لے کر حملہ کیا۔ اور پہلے حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! کہاں جاتے ہو، میں یہ کھڑا ہوں۔ " اس آواز کے ساتھ سب پلٹ پڑے۔ (الاخبار الطوال ۔ ۔ ۔ ۔ حنیفہ دنیوری (طبری روایت سیف)۔ مثنی نے ان کو سمیٹ کر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثنی کے بھائی اور مشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔ ان کی رکاب کی فوج بیدل ہوا چاہتی تھی، مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! میرا بھائی مارا گیا تو کچھ پروا نہیں۔ شرفاء یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔ " خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ " میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا۔ " دیر تک بڑی گھمسان کی لڑائی رہی۔ انس بن ہلال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا زخم کھا کر گرا، مثنی نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گود میں لیا۔ اور اپنے بھائی مسعود کے برابر لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف کے بڑے بڑے افسر مارے گئے لیکن مثنی کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ اسی طرف بھاری رہا۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا۔ مگر کُل کا کُل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا۔ قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔ ، تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا۔ اور بہادری سے تیغ