الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھے۔ و کنا کندماء جذیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قبل لن یتصدعا فلما تفرقنا کانی وما لکاً لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا "ایک مدت تک ہم دونوں جذیمہ (ایک بادشاہ کا نام ہے ) کے ندیم مو کے مثل رہے ، یہاں تک کہ لوگوں نے کہا اب یہ جدا نہ ہوں گے ، پھر جب ہم دونوں جدا ہو گئے تو گویا ایک رات بھی ہم دونوں نے ساتھ بسر نہیں کی تھی۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متمم سے خطاب کر کے کہا کہ اگر مجھ کو ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا امیر المومنین! اگر میرا بھائی آپ کے بھائی کی طرح (یعنی شہید ہو کر) مارا جاتا تو میں ہر گز اس کا ماتم نہ کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ " متمم نے جیسی میری تعزیت کی کسی نے نہیں کی۔ " اسی زمانے میں ایک اور بڑی مرثیہ گو شاعرہ خنسا تھی۔ اس کا دیوان آج بھی موجود ہے جس میں مرثیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل نہیں پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو کعبہ میں روتے اور چیختے دیکھا۔ پاس جا کر تعزیت کی۔ اور جب اس کے چار بیٹے جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے تو چاروں کی تنخواہیں اس کے نام جاری کر دیں۔ پہلوانی اور بہادری میں دو شخص طلیحہ بن خالد اور عمرو معدی کرب تمام عرب میں ممتاز تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو اپنے دربار میں بار دیا۔ اور قادسیہ کے معرکے میں جب ان کو بھیجا تو سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ میں دو ہزار سوار تمہارے مدد کو بھیجتا ہوں۔ عمرو معدی کرب پہلوانی کے ساتھ ساتھ خطیب اور شاعر بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے فنون حرب کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جلسہ میں قبائل عرب اور اسلحہ جنگ کی نسبت جو سوالات کئے اور عمرو معدی کرنے ایک ایک کی نسبت جن مختصر اور بلیغ فقروں میں جواب دیئے اس کو اہل عرب نے عموماً اور مسعودی نے مروج الذہب میں بتفصیل لکھا ہے۔ چنانچہ نیزہ کی نسبت پوچھا تو کہا۔