الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جن لوگوں سے صحبت رکھتے تھے وہ عموماً اہل علم و فضل ہوتے تھے۔ اور اس میں وہ نوعمر اور معمروں کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 449 بغوی نے زہری سے روایت کی ہے کہ کان مجلس عمر منقافی القراء ، ازالۃ الخفاء صفحہ 119)۔ و کان القرآء اصحاب مجالس عمر و مشاورتہ کھولاً کانو شباناً۔ " یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل مجلس اور اہل مشورت علماء تھے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ " فقہ کا بہت بڑا حصہ جو منقح ہوا اور فقہ عمری کہلاتا ہے ، انہی مجلسوں کی بدولت ہوا۔ اس مجلس کے بڑے بڑے ارکان ابی ابن کعب، زید بن ثابت، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد الرحمٰن بن عوف، حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام لوگوں کو علمی فضیلت کی وجہ سے نہایت عزیز رکھتے تھے۔ معمول تھا کہ جب مجلس میں بیٹھتے تو امتیاز مراتب کے لحاظ سے لوگوں کو باریابی کی اجازت دیتے یعنی پہلے قدمائے صحابہ آتے پھر ان سے قریب والے و علی ھذا لیکن کبھی کبھی یہ ترتیب توڑ دی جاتی اور یہ امر خاص ان لوگوں کے لئے ہوتا جو علم کی فضیلت میں ممتاز ہوتے تھے۔ چنانچہ (فتح الباری شرح بخاری – تفسیر اذا جاء نصر اللہ) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قدمائے صحابہ کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔ تاہم یہ حکم دیا کہ سوال و جواب میں اور بزرگوں کی ہمسری نہ کریں۔ یعنی جو کچھ کہنا ہو سب کے بعد کہیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جو لوگ عمر میں کم تھے مسائل کے متعلق رائے دینے میں جھجکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ہمت دلاتے اور فرماتے کہ علم سن (عمر) کی کمی یا زیادتی پر نہیں ہے (از ازالۃ الخفاء بحوالہ بغوی صفحہ 119)۔ عبد اللہ بن عباس اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ ان کی شرکت پر بعض اکابر صحابہ نے شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی خصوصیت کی وجہ بتائی۔ اور ایک علمی مسئلہ پیش کیا جس کا جواب بجز عبد اللہ بن عباس کے اور کسی شخص نے صحیح نہیں دیا۔ عبد اللہ بن مسعود کی بھی قدر کرتے تھے۔ 21 ہجری میں جب ان کو کوفہ کا مفتی اور افسر خزانہ مقرر کر کے بھیجا تو اہل کوفہ کو لکھا کہ " میں ان کو معلم اور وزیر مقرر کر کے بھیجتا ہوں اور میں نے تم لوگوں کو اپنے آپ پر ترجیح دی ہے کہ ان کو اپنے پاس سے جدا کرتا ہوں۔ " بارہا ایسا ہوا کہ جب کسی مسئلہ کو عبد اللہ بن مسعود نے حل کیا تو ان کی شان میں فرمایا۔ کلیف ملئی علماً۔ " یعنی ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔ " اگرچہ فصل و کمال کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ تاہم وہ اہل کمال کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے جس طرح خود بزرگ کے ساتھ پیش آتے تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ اخفاء میں لکھا ہے کہ حضرت عمر