الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
معرکے پیش آئے۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت اعلیٰ درجہ کی آزادی قائم رکھنے کے باوجود حکومت کے جبروت میں ذرا کمی نہ آنے دی۔ مختلف موقعوں پر تحریر و تقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ عمرو بن العاص کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دلوائی اور عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر یہ الفاظ کہے۔ منذکم تعبد تم الناس و قد ولدتھم امھاتھم احرارا۔ "یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا۔ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔ " عرب میں جو لوگ ان کو معزز ہوتے تھے وہ اپنے قبیلہ کے سید یعنی آقا کہلاتے تھے اور ان سے کم رتبہ کے لوگ ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے۔ جعلنی اللہ فدائک بابی و امی۔ یعنی خدا مجھ کر آپ پر قربان کر دے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ چونکہ ان الفاظ سے غلامی اور محکومی کی بو آتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر ان کی نسبت ناراضگی ظاہر کی۔ ایک شخص نے خود ان کی شان میں کہا تھا کہ جعلنی فداءک تو فرمایا کہ ان یھینک اللہ یعنی اگر تو ایسا کرے گا تو خدا تجھ کو ذلیل کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل نے لوگوں کو جس قدر آزادی اور صاف گوئی پر دلیر کر دیا تھا اس کا صحیح اندازہ ذیل کے واقعات سے ہو گا۔ ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا۔ صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیا کرو گے۔ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ " تمہارا سر اڑا دیں گے " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا "کیا میری شان میں تو یہ الفاظ کہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں تمہاری شان میں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا " الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو سیدھا کر دیں گے۔ " عراق کی فتح کے بعد اکثر بزرگوں نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کر لی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حذیفہ بن الیمان کو لکھا کہ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم آپ کی ذاتی رائے ہے یا شرعی حکم ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا کہ میری ذاتی رائے ہے۔ حذیفہ نے لکھ بھیجا کہ آپ کی ذاتی رائے کی پابندی ہم لوگوں پر ضروری نہیں۔ چنانچہ باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ممانعت کے کثرت سے لوگوں نے شادیاں کیں۔ مؤرخ