الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
"مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کا مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات سے قبل خلیفہ ہونے والے خلیفہ کے لیے ایک مفصل وصیت فرمائی تھی۔ اس وصیت نامہ کو امام بخاری، ابوگر، بیہقی، جاحظ اور بہت سے مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ اس کا اخیر فقرہ یہ ہے۔ و اوصیہ بذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ ان یوفی لھم بعھدھم و ان یقاتل من ورائھم و ان لا یکفوا فوق طاقتھم۔ (صحیح بخاری صفحہ 187 مطبوعہ میرٹھ)۔ "یعنی میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو خدا اور رسول کا ذمہ دیا گیا ہے (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد ہے وہ پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ " اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتے وقت بھی ذمیوں کو نہ بھولے۔ غرفہ ایک صحابی تھے ، ان کے سامنے ایک عیسائی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دی۔ غرفہ نے اس کے منہ تھپڑ کھینچ مارا۔ عیسائی نے عمرو بن العاص کے پاس جا کر شکایت کی۔ انہوں نے غرفہ کو بلا بھیجا اور باز پرس کی۔ غرفہ نے واقعہ بیان کیا۔ عمرو بن العاص نے کہ ذمیوں سے امن کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ غرفہ نے کہا، نعوذ باللہ ان کو یہ اجازت ہر گز نہیں دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اعلانیہ گالیاں دیں۔ ان سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ اپنے گرجاؤں میں جو کچھ چاہیں کریں اور اگر ان پر کوئی دشمن چڑھ آئے تو ہم ان کی طرف سے سینہ سپر ہو کر لڑیں اور ان کوئی ایسا بار نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں۔ عمرو بن العاص نے کہا ہاں یہ سچ ہے (اسد الغابہ تذکرہ غرفہ)۔ اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ذمیوں کے حفظ حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔