الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصر کی فتح اگرچہ فاروقی کارناموں میں داخل ہے۔ لیکن اس کے بانی مبانی عمرو بن العاص تھے وہ اسلام سے پہلے تجارت کا پیشہ کرتے تھے۔ اور مصر ان کی تجارت کا جولا نگاہ تھا۔ اس زمانے میں مصر کی نسبت گو اس قسم کا خیال بھی ان کے دل میں نہ گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی زرخیزی اور شادابی کی تصویر ہمیشہ ان کی نظر میں پھرتی رہتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کو جا اخیر سفر کیا اس میں یہ ان سے ملے اور مصر کی نسبت گفتگو کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے احتیاط کے لحاظ سے انکار کیا۔ لیکن آخر ان کے اصرار پر راضی ہو گئے۔ اور چار ہزار فوج ساتھ کر دی۔ اس پر بھی ان کا دل مطمئن نہ تھا۔ عمرو سے کہا کہ خدا کا نام لے کر روانہ ہو۔ لیکن مصر پہنچنے سے پہلے اگر میرا خط پہنچ جائے تو الٹے پھر آنا۔ عریش پہنچے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط پہنچا۔ اگرچہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا۔ عمرو نے کہا اب تو ہم مصر کی حد میں آ چکے ہیں۔ (مقریزی وغیرہ میں لکھا ہے کہ قاصد مقام رفج میں عمرو سے ملا۔ انہوں نے اس خیال سے کہ آگے بڑھنے سے منع کیا ہو گا قاصد سے خط نہیں لیا اور کہا کہ جلدی کیا ہے منزل پر پہنچ کر لے لوں گا۔ عریش کے قریب پہنچے تو خط لے کر کھولا اور پڑھا اور کہا کہ امیر المومنین نے لکھا ہے کہ "مصر نہ پہنچ چکے ہو تو رک جانا۔ " لیکن ہم تو مصر کی حد میں آ چکے ہیں لیکن عمرو بن العاص کی نسبت ایسی حیلہ بازی کے اتہام کی کیا ضرورت ہے۔ اولاً تو بلاذری وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ خط ان کو عریش ہی میں ملا لیکن رفج ملا ہو تو بھی حرج نہیں کیونکہ رفج خود مصر میں داخل ہے )۔ غرض عریش سے چل کر فرما پہنچے ، یہ شہر بحر روم کے کنارے پر واقع ہے۔ اور گو اب ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں آباد تھا۔ اور جالینوس کی زیارت گاہ ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز شہر گنا جاتا تھا۔ یہاں سرکاری فوج رہتی تھی۔ اس نے شہر سے نکل کر مقابلہ کیا۔ اور ایک مہینے تک معرکہ کارزار گرم رہا۔ بالآخر رومیوں نے شکست کھائی۔ عمرو فرما سے چل کر بلبیس، اور ام دنین کو فتح کرتے ہوئے فسطاط پہنچے۔ فسطاط اس زمانے میں کف دست میدان تھا۔ اور اس قطعہ زمین کا نام تھا، جو دریائے نیل اور جب مقطم کے بیچ میں واقع ہے۔ اور جہاں اس وقت زراعت کے کھیت یا چراگاہ کے تختے تھے لیکن چونکہ یہاں سرکاری قلعہ تھا، اور رومی سلطنت کے حکام جو مصر میں رہتے تھے یہیں رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا، اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آ کر لگتی تھیں۔ ان وجوہ سے سرکاری ضرورتوں کے لیے نہایت مناسب مقام تھا۔ عمرو نے اول اسی کو تاکا اور محاصرہ کی تیاریاں کیں۔ مقوقس جو مصر کا فرمانروا اور قیصر کا باجگزار تھا، عمرو بن العاص سے پہلے قلعہ میں پہنچا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی اور فوج کی قلت کو دیکھ کر عمرو نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا۔ اور اعانت طلب کی۔ انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک ہزار ہزار سوار کے برابر ہے۔ یہ افسر زبیر بن العوام، عبادہ بن الصامت، مقداد بن عمرو، سلمہ بن مخلد تھے۔ زبیر کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے عمرو نے ان کو افسر بنایا۔ اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیئے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا۔ اور جہاں جہاں مناسب تھا، مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کئے۔ اس کے ساتھ منجیقوں سے پتھر برسانے شروع کئے۔ اس پر پورے ساتھ مہینے گزر گئے اور فتح و