تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ساتھ اس کی تکمیل و تعمیل کی طرف متوجہ ہو جاتا تھا‘ وہ عموماً چست و چالاک اور زندہ دل نظر آتا تھا‘ عیش و عشرت سے اس کو سخت نفرت تھی‘ امور مملکت کو دوسروں پر منحصر رکھنے کی بجائے خود سر انجام دیتا تھا‘ مگر اہم معاملات درپیش ہونے پر سلطنت کے تجربہ کار اہل کاروں اور مشیروں سے مشورہ کرتا تھا‘ عبدالرحمن جاں باز‘ دلاور اور صف شکن بہادر تھا‘ میدان جنگ میں سب سے پہلے خود حملہ آور ہوتا تھا‘اس کا چہرہ دوست اور دشمن دونوں کے لیے یکساں ہیبت و جلال ظاہر کرتا تھا‘ جمعہ کے دن جامع مسجد میں خطبہ پڑہتا‘ بیماروں کی عیادت کو جاتا‘ اور عام خوشی کے جلسوں اور شادیوں میں شوق سے شریک ہوتا تھا۔ (تم کلامہ) امیر عبدالرحمن کے عہد حکومت میں حسب ذیل اشخاص یکے بعد دیگرے حاجب مقرر ہوئے تھے‘ تمام بن علقمہ‘ یوسف بن بخت‘ عبدالکریم بن مہران‘ عبدالرحمن بن مغیث منصور خواجہ سرا‘ امیر عبدالرحمن نے اگرچہ بعض اشخاص کو وزارت پر نامزد کیا مگر اس کا کوئی ایک وزیر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے اسی کے مشوروں پر عمل کیا ہو‘ اس نے ایک مجلس امراء مقرر کر رکھی تھی جس سے انتظام ملکی میں مشورے لیتا تھا اس مجلس مشورت کے ارکان یہ تھے ابوعثمان‘ عبداللہ بن خالد‘ ابوعبیدہ‘ شہید بن عیسیٰ‘ ثعلبہ بن عبید آثم بن مسلم۔ حلیہ اور اولاد عبدالرحمن نہایت خوب صورت کشیدہ قامت اور چھریرے بدن کا آدمی تھا‘ رنگ بہت صاف اور بال بھورے رنگ کے تھے‘ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس کی قوت شامہ کمزور تھی‘ مرتے وقت اس نے نو بیٹیاں اور گیارہ بیٹے چھوڑے‘ جن میں سلیمان سب سے بڑا تھا مگر اس نے ولی عہد اپنے دوسرے بیٹے ہشام کو بنایا تھا‘ سلیمان وہی بیٹھا تھا‘ جس کو فرات کے کنارے سے بغل میں لے کر بھاگا تھا مگر بعض مورخین نے لکھا ہے کہ وہ اندلس میں آنے سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ بہر حال مرتے وقت جو بیٹے موجود تھے ان میں سلیمان سب سے بڑا تھا‘ ہشام اپنے بھائی سلیمان سے زیادہ لائق اور تاج و تخت سلطنت کے سنبھالنے کی زیادہ قابلیت رکھتا تھا‘ اسی لیے عبدالرحمن نے اس کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ نظم و نسق ایک نگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ امیر عبدالرحمن کی طبیعت میں مروت و فیاضی کا جوہر تھا‘ لیکن غداروں اور باغیوں نے اس کو سختی و سزا دہی پر مجبور کیا‘ اس کا طبعی میلان علم و ادب کی طرف تھا‘ مگر ضرورت نے اس کو نہایت محتاط اور تجربہ کار سپہ سالار بنا دیا تھا‘ عبدالرحمن کی ابتدائی عمر دمشق کے انتہائی تکلفات میں گزری تھی‘ مگر مصیبت آئی اور افلاس و غریبی سے پالا پڑا تو اس نے نہایت خوشی اور بلند ہمتی سے سب کچھ برداشت کیا‘ ابھی پوری طرح اس کی سلطنت قائم بھی نہ ہوئی تھی کہ اس نے مشرق کے دور دراز علاقوں سے بنو امیہ اور ان کے متولین کو اپنے خرچ سے اندلس بلوایا اور ان میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ کے موافق عہدے اور عزتیں عطا کیں‘ عبدالرحمن کی ذکاوت و مآل اندیشی کے دشمن بھی مداح تھے‘ عبدالرحمن تمام مصائب و آلام کو خاموشی سے برداشت کر لیتا تھا۔ عبدالرحمن نے اپنے ملک مقبوضہ کو چھ صوبوں میں تقسیم کیا تھا‘ ہر ایک صوبہ میں ایک فوجی سپہ سالار رہتا تھا‘ اس سپہ سالار کے ماتحت دو عامل اور چھ وزیر ہوتے