تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف توجہ کی۔ بہت سے جنگی جہاز بنوائے گئے۔ اور اندلس کا بیڑا اس زمانے کے تمام جنگی بیڑوں سے طاقتور ہو گیا۔ بحر روم پر خلیفہ ناصر کی سیادت مسلم ہو گئی۔ خلیفہ نے قدیمی شاہی محل کے متصل ایک عظیم الشان قصر دار الروضہ کے نام سے تعمیر کرایا۔ مسجد قرطبہ کی زیب و زینت اور وسعت میں اضافہ کیا گیا۔ علمی مجالس اور مذاکرات علمیہ کا سلسلہ جاری ہوا۔ تجارتوں میں سہولتیں پیدا ہوئیں۔ اوراندلس کے تاجر دور و دراز مقامات تک مال تجارت لے کر پہنچنے لگے۔ خلیفہ عبدالرحمن کی عالمگیر عظمت خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی عظمت و شہرت نے بہت جلد دنیا کا محاصرہ کر لیا۔ ۳۳۶ھ میں قسطنطین بن الیون بادشاہ قسطنطنیہ نے اپنے سفیر نہایت شاندار اور قیمتی تحائف کے ساتھ خلیفہ ناصر کی خدمت میں قرطبہ کی طرف روانہ کئے قسطنطین نے ان شاندار تحائف کو بھیج کر ایک طرف اپنی شان و عظمت اور مال و دولت کی نمائش کرنی چاہی تھی اور دوسری طرف وہ خلیفہ ناصر کی دوستی سے فائدہ اٹھانے کا خواہاں تھا۔ خلیفہ ناصر نے اس سفارت کے قریب پہنچنے کا حال سن کر شہر قرطبہ کی آراستگی کا حکم دیا۔ فوجیں زرق برق وردیوں میں دورویہ استادہ ہوئیں۔ دروازوں اور دیواروں پر زر دوزی کے پردے ریشمیں نمگیرے خوبصورت قناتیں اور انواع و اقسام کی زینت اور صنعت کاری دیکھ کر قسطنطنیہ کے ایلچی حیران و ششدر رہ گئے اور اپنے لائے ہوئے ہدیوں کو حقیر دیکھنے لگے۔ سنگ مرمر کے خوبصورت ستونوں اور پچی کاری کے سنگین و رنگین فرشوں پر سے گذرتے ہوئے یہ ایلچی دربار کے ایوان علی شان میں پہنچے جہاں خلیفہ ناصر تخت خلافت پر جلوہ افگن اور امرا و وزراء و علماء و شعراء اور سرداران فوج اپنے اپنے اور مرتبے پر ایستادہ تھے ان سفیروں پر یہ پر ہیبت و عظیم الشان نظارہ دیکھ کر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ یہر حال وہ سنبھلے اور نہایت ادب و تپاک سے کورنش بجا لائے اور تخت کے قریب جا کر اپنے بادشاہ کا خط پیش کیا۔ ایک آسمانی رنگ کا غلاف تھا۔ جس پر سونے کے حروف سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس غلاف کے اندر ایک صندوقچہ تھا جو نہایت خوب صورت اور مرصع کار تھا۔ اس صندوقچہ پر ایک سونے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ جس کا وزن چار مثقال تھا۔ اس مہر کے ایک طرف مسیح کی اور دوسری طرف شاہ قسطنطین کی تصویر کندہ تھی۔ اس صندوقچہ کے اندر ایک اور صندوقچہ بلور کا تھا۔ جس پر طلائی و نقرئی مینا کا ربیل بوٹے منقوش تھے۔ اس کے اندر ایک نہایت خوب صورت ریشمی لفافہ تھا۔ جس کے اندر نہایت خوب صورت آسمانی رنگ کی جھلی پر طلائی حروف میں لکھا ہوا خط رکھا تھا۔ عنوان خط میں خلیفہ عبدالرحمن ناصرلدین اللہ کو نہایت شاندار القاب کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا۔ خلیفہ نے خط پڑھوا کر سنا۔ اس کے بعد محمد بن عبدالبر کی طرف اشارہ کیا کہ وہ حسب حال تقریر کریں۔ ان فقیہ صاحب کو برجستہ تقریر کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا مگر اس وقت اس دربار کی عظمت اور مجلس کے رعب کا یہ عالم تھا کہ فقیہ مذکور کھڑے ہوئے اور چند الفاظ ادا کرنے کے بعد بے ہوش ہو کر گر پڑے ان کے بعد ابو علی اسمٰعیل بن قاسم کھڑے ہوئے اور حمد و نعت کے بعد کوئی لفظ زبان سے نہ نکال سکے یہ معلوم ہوتا تھا کہ فکر و اندیشہ میں مستغرق ہیں یہ رنگ دیکھ کر منذر بن سعید جو معمولی درجہ کے علماء میں شامل تھے۔ کھڑے ہوئے اور بلاتامل تقریر شروع کر دی یہ تقریر اس قدر لطیف و پرجوش اور حسب موقعہ تھی کہ بے اختیار تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہوئیں۔ خلیفہ نے اس