تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امیر عبدالرحمن کی حمیت اسلامی یحییٰ الغزال نے قسطنطنیہ میں وارد ہو کر نہایت غور و تعمق کی نگاہ سے وہاں کے حالات کا معائنہ کیا اور اپنے سلطان کی دوستی کا یقین قیصر کو دلا کر واپس ہوا۔ سلطان عبدالرحمن نے ایک مسلمان فرماں روا کے خلاف گووہ عبدالرحمن کا دشمن عباسی خلیفہ ہی کیوں نہ ہو ایک عیسائی بادشاہ کی روپیہ یا فوج سے مدد کرنی‘ کسی طرح مناسب نہ سمجھی اور زبانی وعدہ و عید پر ہی ٹال دیا ورنہ عبدالرحمن قیصر کی درخواست کو پورا کرنے کی طاقت ضرور رکھتا تھا۔ کیونکہ قیصر نے عبدالرحمن ثانی سلطان اندلس سے فوج اور روپیہ مانگا تھا۔ ایک یا چند ہزار فوج اور ایک یا چند لاکھ دینار کا بھیج دینا عبدالرحمن ثانی کے لیے بالکل معمولی بات تھی اور اندلس کی فوج یا خزانہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا مگر عبدالرحمن کی حمیت اسلامی نے اس کو اس کام سے باز رکھا۔ پرتگالیوں کی بغاوت اسی سال اندلس کے جنوب و مغرب میں اس علاقے کے اندر جس کو آج کل ملک پرتگال کہا جاتا ہے اور جہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ تھی شہر مریدہ والوں کی سربراہی میں بغاوت کا فتنہ پیدا ہوا۔ اس فتنے کو فرو کرنے کے لیے عبیداللہ بن عبداللہ کو بھیجا گیا۔ سخت معرکوں کے بعد باغیوں کو شکست ہوئی اور شہر مریدہ کی شہر پناہ کو منہدم کر کے عبیداللہ ۲۱۰ھ میں واپس آ گیا۔ چند روز کے بعد باغیوں نے پھر سر اٹھایا اور عبداللہ کو پھر اس طرف جانا پڑا اس مرتبہ بھی بغاوت فرو ہو گئی۔ اس بغاوت کا سبب وہ پادری تھے جو جلیقیہ اور قسطلہ سے یہاں آ کر بغاوت کی ترغیب دینے میں مصروف تھے۔ کیونکہ شمالی عیسائیوں بالخصوص جلیقیہ والوں کو یہ محسوس ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کا اندرونی بغاوتوں اور آپس کی لڑائیوں میں مصروف رہنا ہی ہماری ترقی اور کامیابی کا باعث ہے اور جب تک ہم جنوبی علاقوں میں ہنگامے برپا نہ کرا دیں۔ اس وقت تک ہم کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کوشش اور بغاوت نہیں کرنی چاہیئے۔ اہل مریدہ کی سرکشیوں اور گستاخیوں کی اب کوئی انتہا نہیں رہی تھی۔ کیونکہ انھوں نے اپے عامل کو بغاوت کر کے اپنے شہر سے نکال دیا تھا اور شاہی فوجوں کا دو مرتبہ مقابلہ کر چکے تھے۔ لہٰذا ۲۱۳ھ میں سلطان عبدالرحمن نے حکم دیا کہ شہر مریدہ کی منہدم شدہ فصیل کے پتھروں کو دریا میں ڈال دو۔ جب اس حکم کی تعمیل عامل مریدہ نے کرنی چاہی تو وہاں کے لوگ پھر باغی ہو گئے۔ انہوں نے اس مرتبہ پھر شہر پر قبضہ کر لیا اور عامل کو وہاں سے خارج ہونا پڑا۔ اہل شہر نے شہر کی منہدم شدہ فصیل کو پھر تعمیر کر لیا اور مقابلہ کے لیے مضبوط ہو بیٹھے۔ یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ بغاوت صرف عیسائیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ بڑا حصہ مسلمانوں کا اس میں شریک تھا اور باغیوں کی سرداری محمود بن عبدالجبار کے ہاتھ میں تھی۔ یہ مسلمان عیسائیوں کے ترغیب دینے سے کیوں بغاوت پر آمادہ ہو جاتے تھے اس کا سبب آگے بیان ہونے والا ہے۔ بہر حال ۲۱۷ھ تک مریدہ کے مقابل شاہی سپہ سالار مصروف جنگ رہے اور کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ آخر ۲۱۸ھ کے ابتدا میں سلطان عبدالرحمن نے خود مریدہ پر فوج کشی کی مگر اس مرتبہ ابھی شہر فتح نہ ہونے پایا تھا کہ سلطان کو محاصرہ اٹھا کر فوراً کسی ضرورت سے قرطبہ کی جانب واپس آنا پڑا۔ ۲۲۰ھ میں پھر خاص اہتمام سے حملہ کیا گیا اور یہ