تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علاوہ ملک اندلس کے تمام بڑے بڑے تجربہ کار سپہ سالار اور ہر صوبے کے نامور سردار موجود تھے۔ پہلی جنگ شہر شدونہ کے متصل لاجنڈا کی جھیل کے قریب ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے ۲۸ رمضان المبارک ۹۲ھ مطابق ماہ جولائی ۷۱۱ء کو دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا‘ موسیٰ بن نصیر نے طارق کے روانہ ہونے کے بعد افریقہ سے پانچ ہزار فوج بغرض کمک اور روانہ کر دی تھی‘ یہ پانچ ہزار فوج بھی طارق کے پاس اس مقابلے سے پہلے پہنچ چکی تھی‘ لہٰذا طارق کی فوج اب بارہ ہزار ہو گئی تھی‘ ایک طرف بارہ ہزار مسلمان تھے‘ دوسری طرف ایک لاکھ عیسائی تھے‘ مسلمان اس ملک کے حالات سے ناواقف اور بالکل اجنبی تھے‘ عیسائی لشکر اسی ملک کا رہنے والا تھا اور اپنے ملک و سلطنت کے بچانے کو میدان میں آیا تھا‘ ادھر اسلامی لشکر کا سردار گورنر افریقہ موسیٰ بن نصیر کا آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد تھا جو کوئی غیر معمولی قدردانی نہیں کر سکتا تھا‘ ادھر ملک اندلس کا بادشاہ عیسائی لشکر کی سپہ سالاری کر رہا تھا‘ جس کے قبضہ میں ملک کے تمام خزانے اور ہر قسم کی عزت افزائی و قدردانی کے سامان تھے‘ ادھر فوج میں اکثر نو مسلم بربری تھے‘ ادھر عقیدت مند عیسائیوں کی فوج تھی جن کو لڑائی پر ابھارنے اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے کے لئے تمام بڑے بڑے نامور پادری اور بشپ موجود تھے‘ اس معرکہ میں طارق کی مٹھی بھر فوج جو اپنے حریف کی فوج گراں کا بمشکل آٹھواں حصہ تھی اگر شکست کھا جاتی‘ تو یہ معرکہ بہت ہی معمولی اور ناقابل تذکرہ معرکہ ہوتا‘ لیکن چونکہ بارہ ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ با سازوسامان عیسائیوں کے لشکر جرار کو شکست فاش دی‘ لہٰذا یہ لڑائی دنیا کی عظیم الشان لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے‘ ایسے عظیم الشان معرکہ کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت ہی کم اور صرف چند دستیاب ہو سکتی ہیں‘ ایک ہفتہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہیں‘ طارق نے جس وقت لرزیق بادشاہ ہسپانیہ کے لشکر عظیم کے مقابل اپنی مٹھی بھر فوج کی صفیں درست کیں تو اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے ایک ولولہ انگیز تقریر کی‘ جو ایمان باللہ کو استوار اور پائے استقلال کو مضبوط کرنے والی تھی‘ طارق کی اس تقریر نے مسلمان بہادروں کے دوران خون کو بڑھا دیا اور شوق شہادت نے الفت دنیا اور محبت زن و فرزند کو دلوں سے مٹا دیا‘ اس کے بعد معرکۂ کارزار گرم ہوا‘ ادھر سے ہائے وہو کا شوروغل تھا‘ ادھر سے تکبیر کی آواز تھی جو دشمنوں کے دلوں کو دہلاتی اور مسلمانوں کے دلوں کو بڑھاتی تھی ؎ بہ پیکار کارے کہ تکبیر کرد نہ شمشیر کرد و نئے تیرکرد عیسائی لشکر کا بڑا حصہ زرہ پوش سواروں پر مشتمل تھا لیکن اسلامی فوج سب پیدل تھی‘ عیسائی سواروں کی صفیں طوفانی سمندر کی لہروں کی طرح جب حملہ آور ہوئی ہیں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ فیل پیکر گھوڑوں اور دیو نژاد سواروں کے پرے مسلمانوں کو کچلتے اور ان کی لاشوں کو سموں کی ضربوں سے قیمہ بناتے ہوئے گزر جائیں گے اور نیزہ و شمشیر کے استعمال کا موقعہ نہ پائیں گے‘ لیکن جس وقت یہ آہن پوش متلاطم سمندر جمعیت اسلامی کے پہاڑ سے ٹکرایا ہے تو معلوم ہوا کہ بھیڑوں کی کثرت‘ شیروں کی قلت پر غلبہ پانے کے لئے حملہ آور ہوئی تھی‘ اسلامی تلواروں کی بجلیاں چمکیں اور