تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باشندوں نے مقابلہ کر کے بھگا دیا تھا۔ نہ خشکی میں کوئی شخص نظر آیا نہ ان کا کوئی جہاز ساحل پر موجود پایا گیا۔ عیسائی بادشاہوں کی مرعوبیت شانجہ کا چچا زاد بھائی اردونی جو فردی نند حاکم قسطلہ کا داماد بھی تھا ریاست لیون کا فرماں روا تھا۔ جب شانجہ کو خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی فوجوں نے لیون کا حاکم بنا دیا تو اردونی اپنے خسر فردی نند کے پاس چلا گیا تھا اب اردونی نے جلیقیہ سے اپنے بیس ہمراہیوں کے ساتھ خلیفہ حکم کی خدمت میں حاضر ہونے اور فریاد کرنے کا قصد کیا۔ چنانچہ ۳۵۵ھ میں اردونی شاہ لیون شہر سالم میں مع اپنے ہمراہیوں کے پہنچا تو امیر غالب محافظ حدود شمالی نے اس کو روکا اور کہا کہ تم ممالک محروسہ اسلامیہ میں بلا اطلاع و اجازت کیسے داخل ہوئے۔ اردونی سابق بادشاہ لیون نے کہا کہ میں امیرالمومنین کا ایک ادنیٰ غلام ہوں۔ میں اپنے آقا کے پاس جاتا ہوں میں نے کسی اجازت اور اطلاع کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ تاہم غالب نے اس کو وہیں شہر سالم میں روک کر دربار خلافت کو اطلاع دی۔ یہاں سے اردونی کے آنے کی اجازت مرحمت ہوئی اور ساتھ ہی اس کے استقبال کے لیے ایک سردار کو روانہ کر دیا گیا۔ جب اردونی شہر قرطبہ کے قریب گیا اور شہر میں داخل ہونے کے بعد وہ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی قبر کے سامنے پہنچا تو خود بخود فوراً گھوڑے سے اتر کر قریب پہنچا۔ اور دیر تک دعا کرتا رہا۔ اور قبر کو سجدہ کر کے آگے روانہ ہوا۔ خلیفہ حکم نے اردونی کو اجازت دی کہ وہ سفید لباس پہن کر جو بنو امیہ میں عزت کا لباس سمجھا جاتا تھا داخل دربار ہو۔ شہر طیطلہ کا اسقف عبداللہ بن قاسم اور قرطبہ کے عیسائیوں کا مجسٹریٹ ولید بن خیرون اس کے ہمراہ برائے ادب آموزی و رہبری موجود تھے۔ اردونی جب دربار میں حاضر ہوا تو خلیفہ کے سامنے پہنچنے سے پہلے ہی اس مکان کی عظمت و ہیبت سے مرعوب ہو کر اور ٹوپی اتار کر دیر تک ششدر کھڑا رہا۔ ہمراہیوں نے آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا۔ جب تخت کے سامنے پہنچا تو بے اختیار سجدہ میں گر پڑا۔ پھر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر کسی قدر آگے بڑھا اور پھر سجدہ میں گر پڑا۔ اسی طرح سجدے کرتا ہوا اس مقام تک پہنچا جو اس کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور اس کرسی پر جو اس کے لیے بچھائی گئی تھی بیٹھا۔ اب اس نے ولید بن خیرون کے اشارہ پر کئی مرتبہ بولنے کی کوشش کی اس پر اس قدر رعب تھا۔ کہ کچھ نہ بول سکا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر خلیفہ حکم کچھ دیر خاموش رہا تاکہ اس کو اپنے حواس بجا کرنے کا موقعہ ملے۔ پھر اس کے بعد خلیفہ نے کہا کہ۔۔ ’’اے اردون ہم تیرے یہاں آنے سے بہت خوش ہوئے۔ ہمارے الطاف خسروانہ سے تیری خواہشات پوری ہوں گی‘‘۔ اردونی نے خلیفہ کا یہ کلام سن کر فرط مسرت سے اٹھ کر تخت کے سامنے سجدہ کیا۔ اور نہایت عاجزی سے عرض کیا: ’’اسے میرے آقا میں حضور کا ادنیٰ غلام ہوں‘‘۔ خلیفہ نے فرمایا کہ : ’’ہم تجھ کو خیر خواہان دولت میں شمار کرتے ہیں اور تیری درخواستوں کو منظور کرتے ہیں۔ اگر کوئی خواہش ہو تو بیان کر‘‘۔ اردونی یہ سن کر پھر دیر تک تخت کے سامنے سجدہ میں پڑا رہا اور اس کے بعد نہایت