تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے ایک سازش کی گئی کہ ’’آہن بآہن تواں کو فتن‘‘ (یعنی لوہے کو لوہا کاٹتا ہے) حکم نے عمر بن یوسف کو بلا کر مشورہ کیا اور اس کے مشورہ کے موافق اس کے بیٹے یوسف بن عمر کی جگہ اس کو طیطلہ کی سند حکومت عطا کی گئی۔ عمر بن یوسف نے طیطلہ پہنچ کر اہل طیطلہ سے رعایت و مروت کا برتائو شروع کیا اور وہاں کے بعض امراء سے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ موجودہ خاندان سلطنت یعنی بنو امیہ کو تخت حکومت سے معزول کر دینا چاہئے۔ یہ سنتے ہی طیطلہ والے بے حد خوش ہوئے اور بہت جلد تمام باشندگان طیطلہ نے عمر بن یوسف کو اپنی جان نثاری اور حمایت کا یقین دلایا۔ اس طرح اہل طیطلہ کے اصلی خیالات سے واقف ہونے کے بعد عمر بن یوسف نے ان سے کہا کہ موجودہ سلطنت کے مٹانے اور درہم برہم کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ ہم طیطلہ کے متصل ایک اور قلعہ تعمیر کریں تاکہ طیطلہ کا محاصرہ کرنا آسان کام نہ رہے۔ اہل طیطلہ نے کہا کہ اس قلعہ کی تعمیر کے تمام مصارف ہم خود ادا کریں گے۔ چنانچہ باشندوں نے خود ہی چندہ کر کے کافی روپیہ عمر بن یوسف کی خدمت میں حاضر کر دیا اور بہت جلد ایک مختصر و مضبوط قلعہ بن کر تیار ہو گیا۔ اس کے بعد سرحدی عامل نے قرار داد کے موافق سلطان حکم سے فوجی امداد طلب کی کہ ادھر عیسائی حملہ کا خطرہ ہے۔ سلطان حکم نے اپنے بیٹے عبدالرحمن کی سرداری میں ایک زبردست فوج اس طرف کو روانہ کی۔ یہ فوج راستہ میں طیطلہ ہو کر گزری۔ جب طیطلہ کے قریب پہنچی تو عمر بن یوسف عامل طیطلہ نے استقبال کیا اور مراسم مہمانی بجا لایا۔ اس جدید قلعہ میں ٹھہرایا اور اہل طیطلہ سے کہا کہ شہزادئہ عبدالرحمن یعنی ولی عہد سلطنت چونکہ تمہارے شہر میں آیا ہے لہٰذا تم اس کی مہمانی اور مدارات میں خوب شوق اور جوش کا اظہار کرو‘ تاکہ اس کے دل میں تمہاری وفاداری اور محبت کا نقش بیٹھ جائے اور وہ تمہاری طرف سے غافل اور مطمئن رہے۔ اہل طیطلہ نے اس مشورہ کو پسند کیا اور ان تمام لوگوں نے جو فساد و بغاوت کے نمبر دار اور انقلاب حکومت کے خواہاں تھے شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہونے اور سلام کرنے کی اجازت چاہی۔ شہزادہ نے بخوشی ان کو اجازت دی اور وقت مقررہ پر سب کو طلب فرمایا۔ اس طرح طیطلہ کا تمام مواد فاسد جب قلعہ کے اندر پہنچ گیا تو سب کو گرفتار کر کے قتل کر ڈالا گیا اور ایک خندق میں جو قلعہ کے اندر کھودی گئی تھی سب کی لاشوں کو ڈال کر مٹی سے برابر کر دیا گیا۔ اس کے بعد طیطلہ سے شر و بغاوت کا استیصال ہو گیا۔ باقی لوگ انقلابی لوگوں کے اس انجام کو دیکھ کر سہم گئے اور پھر کسی کو بغاوت و سرکشی کی جرأت نہ ہوئی۔ عیسائیوں سے جھڑپیں آئے دن کی اس بغاوت و سرکشی اور ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر اور باغیان طیطلہ کی اس سزا دہی سے فارغ ہو کر سلطان حکم نے عیسائیوں کے خلاف جو شمالی اندلس پر قابض اور دامن جبل البرتات پر برشلونہ تک متصرف ہو چکے تھے۔ معمولی فوجی دستے بھیجے لیکن پوری طاقت سے اس طرف متوجہ ہونا مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شمال میں لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ کبھی مسلمان عیسائیوں کو شکست دیتے اور کبھی خود ان سے شکست کھا جاتے۔ سات آٹھ برس تک یہی سلسلہ جاری رہا چونکہ مسلمانوں کی پوری اور بڑی طاقت عیسائیوں کے مقابلے پر نہیں بھیجی گئی تھی بلکہ صرف عیسائیوں کی پیش قدمی کا روکنا مد نظر تھا لہٰذا ان معرکہ آرائیوں کا نتیجہ عیسائیوں کے حق میں بہت ہی مفید ثابت ہوا ان کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب جاتا رہا۔ عیسائیوں کے حوصلے بڑھ