تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واسط کی سند حکومت عطا کی اور ابوطاہر سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ کوفہ کے باہر یوسف اور ابوطاہر کا مقابلہ ہوا۔ سخت معرکہ آرائی کے بعد یوسف کی فوج کو شکست ہوئی اور یوسف کو ابوطاہر نے گرفتار کر لیا۔ بغداد میں اس خبر سے سخت پریشانی پیدا ہوئی۔ ابوطاہر کوفہ سے انبار کی جانب روانہ ہوا۔ دربار خلافت سے اس کی روک تھام کے لیے مونس خادم‘ مظفر اور ہارون وغیرہ سردار مامور ہوئے۔ مگر ابوطاہر کے مقابلے میں سب شکست کھا کر واپس بغداد آئے۔ اور ابوطاہر رحبہ کی طرف بڑھا۔ رحبہ کو بھی خوب پامال و ویران کیا۔ اس کے بعد صوبہ جزیرہ کو متواتر اپنے حملوں سے پامال کرتا پھرا اور کوئی اس کو نہ روک سکا۔ اس کے بعد وہ جزیرہ کے اکثر قبائل پر خراج سالانہ مقرر کر کے احساء چلا گیا۔ اور بہت سے لوگ قرمطی مذہب میں داخل ہو گئے۔ مکہ معظمہ پر چڑھائی ۳۱۷ھ میں ابو طاہر نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی۔ بہت سے حاجیوں کو قتل کیا۔ اور مکہ کو خوب لوٹا۔ میزاب اور خانہ کعبہ کے دروازے کو اکھیڑ ڈالا۔ غلاف کعبہ اتار کر اپنے لشکر میں تقسیم کر دیا۔ اور حجرا سود کو نکال کر اپنے ساتھ ہجر کی طرف لے گیا۔ اور چلتے وقت اعلان کر گیا۔ کہ آئندہ حج ہمارے یہاں ہوا کرے گا۔ حجراسود کے واپس کرنے کے لیے لوگوں نے ابو طاہر سے بہت خط و کتابت کی اور بعض ۱؎ یہ قرامطی اس قدر خبیث اور گمراہ تھے کہ بیت اللہ شریف سے حجر اسود اٹھا لائے تھے اور اسے کئی سال اپنے پاس رکھا۔ بیت اللہ شریف کی بھی بے حرمتی کی۔ عام مساجد کا انہدام شاید ان کے نزدیک معمولی بات تھی۔ سرداروں نے پچاس ہزار دینار اس کے معاوضے میں دینے چاہے۔ مگر ابوطاہر نے اس کو واپس نہ کیا۔ ابو طاہر نے اس کے بعد مسلسل اپنی حملہ آوریوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اور عراق و شام کو اپنی تاخت و تاراج سے برباد کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اہل دمشق پر بھی اس نے سالانہ ٹیکس مقرر کیا۔ ابوالمنصور اس کے بعد اس کا بڑا بھائی احمد قرامطہ کی سرداری و حکومت پر کامیاب ہوا۔ اس کو ابوالمنصور کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے‘ قرامطہ کے ایک گروہ نے ابوالمنصور کی حکومت سے انکار کیا اور ابو طاہر کے بڑے بیٹے سابور کو مستحق حکومت قرار دیا۔ اس نزاع کے طے کرنے کے لیے تمام قرامطہ نے ابوالقاسم عبیدی کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ کر افریقہ کو ایلچی روانہ کیے۔ ابوالقاسم عبیدی نے اپنا فیصلہ لکھ کر بھیجا کہ ابومنصور احمد کو بادشاہ تسلیم کیا جائے اور ابومنصور احمد کے بعد سابور بن ابوطاہر تخت نشین ہو گا۔ قرامطہ چونکہ اپنے آپ کو مہدی کا ایلچی اور طرفدار کہتے۔ اور عبیداللہ مہدی کو اس کے دعوے کے موافق امام اسمٰعیل بن جعفر صادق کی اولاد میں سمجھ کر اس کی تکریم کرتے تھے۔ اس لیے عبیدیین قرامطہ کو اپنا دوست سمجھتے اور قرامطہ عبیدیین کی خلافت کو مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابوالقاسم کے فیصلے کو بخوشی تسلیم کر لیا اور احمد منصور قرامطہ کا بادشاہ بن گیا۔ اس کے بعد جب ۳۳۴ھ میں ابوالقاسم عبیدی فوت ہوا اور اس کی جگہ اسمٰعیل عبیدی افریقیہ میں تخت نشین ہوا۔ تو منصور احمد قرمطی نے مبارک باد اور اظہار عقیدت کے لیے ایلچی روانہ کیے۔ ۳۳۹ھ میں اسمٰعیل عبیدی نے قیروان سے بار بار ابومنصور کو لکھا۔ کہ حجرا اسود خانہ کعبہ میں واپس بھیج دو تو ابومنصور احمد قرمطی نے حجرا سود کو خانہ کعبہ میں واپس بھیج