تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرماں بردار رہنے کا اقرار کر کے صلح چاہی۔ سلطان نے اس کے تمام سیر حاصل اور زرخیز علاقے پر قبضہ کر کے بہت تھوڑا سا پہاڑی علاقہ اس کے پاس چھوڑ دیا۔ اور اس طرف سے مطمئن ہو کر قرطبہ کو واپس آیا۔ اس کے بعد ایک فوج اپنے وزیر اسحاق بن محمد کو دے کر مرسیہ و بلنسیہ کی سرکوبی کو روانہ کیا۔ اسحٰق بن محمد نے اس طرف کے باغیوں کو مطیع کر کے قرمونہ پر چڑھائی کی اور اس کو حبیب بن سوارہ کے قبضے سے نکال کر سلطانی مملکت میں شامل کیا۔ اسی سال سلطان کے آزاد کر دہ غلام بدر نے لبلہ پر چڑھائی کر کے وہاں کے باغی سردار عثمان بن نصیر کو گرفتار کر کے قرطبہ کی جانب بھیج دیا۔ ۳۰۶ھ میں اسحاق بن محمد نے قلعہ سمبر نہ کو فتح کر کے وہاں کے باغیوں کو مطیع و فرماں بردار بنایا۔ سلطان کے خلاف ایک سازش ۳۰۸ھ میں محمد بن عبدالجبار بن سلطان محمد اور قاضی بن سلطان محمد نے سلطان عبدالرحمن ثالث کے خلاف ایک سازش کی اور تخت سلطنت حاصل کرنے کے لیے سلطان کے قتل کی تدبیروں میں مصروف ہوئے اتفاقاً اس سازش کے شرکاء میں سے ایک شخص نے تمام حالات کی سلطان کو خبر دی سلطان نے عجلت اور شتاب زدگی سے کام نہیں لیا بلکہ اول خوب اچھی طرح سے تحقیق و تفتیش کے سلسلے کو جاری رکھا اور جب ان دونوں پر جرم ثابت ہو گیا۔ تو دونوں کو قتل کرا دیا۔ چونکہ یہ دونوں مجرم ثابت ہو چکے تھے۔ لہٰذا لوگوں نے اس سزا پر کسی بے چینی یا ناراضگی کا مطلق اظہار نہیں کیا۔ ۳۰۹ھ میں قلعہ طرسوی فتح ہوا۔ اسی سال احمد بن اضخی ہمدانی نے جو قلعہ جامہ پر قابض اور اطاعت سے منحرف تھا۔ خود ہی اطاعت قبول کر کے اپنے بیٹے کو بطور یرغمال قرطبہ میں بھیج دیا۔ غرض چھوٹے چھوٹے سردار جو جابجا خود مختار ہو گئے تھے۔ یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے سب یا تو مطیع و فرما نبردار بنائے گئے یا مقتول ہوئے۔ اور سلطنت قرطبہ کا رقبہ وسیع ہو کر وہ حالت جو سلطان عبداللہ کے زمانے میں تھی دور ہو گئی۔ یا یوں سمجھنا چاہیئے کہ جس قدر ملک بیسیوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا وہ سب ایک اسلامی سلطنت کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ عیسائی مقبوضات کی تفصیل اب عیسائی مقبوضات کا حال سنو۔ سب سے قریب جنوبی مشرقی ساحل کے متصل ایک پہاڑی علاقہ ابن حفصون کے قبضے میں تھا۔ جو عیسائی ہو گیا تھا۔ اور اس کے رفیق سب عیسائی لوگ ہی باقی رہ گئے تھے لہٰذا یہ ایک عیسائی ریاست تھی جو ابن حفصون کی تجربہ کاری کے سبب ایک زبردست عیسائی طاقت سمجھی جاتی تھی۔ مگر اس سے صلح ہو گئی تھی۔ طیطلہ ایک نہایت مضبوط مقام تھا جس کا فتح کرنا آسان کام نہ تھا۔ یہاں سلطان عبداللہ کے زمانے میں خود مختار ریاست قائم ہو گئی تھی۔ اور اب اس کا دربار قرطبہ سے کوئی رسمی تعلق بھی باقی نہ رہا تھا۔ یہ ریاست ملک اندلس کے وسط میں واقع تھی۔ اور ایک زبردست عیسائی طاقت تھی۔ برشلونہ یہاں عرصہ دراز سے عیسائی حکومت قائم تھی۔ اربونیہ میں بھی ایک مستقل عیسائی سلطنت قائم ہو چکی تھی۔ نوار‘ اربونیہ کے متصل ہی ایک زبردست ریاست فرانسیسیوں نے قائم کر لی تھی السیٹریاس کی ریاست اب ایک زبردست سلطنت کی شکل میں تبدیل ہو کر اندلس کے میدانوں میں دور دور تک پھیل گئی تھی۔ جس کے ماتحت جلیقیہ‘ لیون اور قسطلہ کی تین زبردست عیسائی