تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصر کے بادشاہ عبیدی کا پڑھواتا تھا۔ دربار قاہرہ اسی کو غنیمت جانتا تھا۔ ۴۶۸ھ میں جب کہ بدر جمالی نے مستنصر کی حکومت کے بگڑے ہوئے کام کو بہت کچھ سنبھال دیا تھا۔ دمشق پر امیر اقدس نے حملہ کر کے اپنا قبضہ جمایا۔ اور بجائے بادشاہ مصر کے خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ دمشق میں پڑھا گیا۔ ۴۶۹ھ میں اتسز بن افق نامی سردار نے جو سلجوقی لشکر کا ایک سپہ سالار تھا دمشق پر حملہ کیا۔ یہ خبر سنتے ہی مصر سے بدر جمالی نے دمشق کی جانب فوج روانہ کی۔ اہل دمشق نے اتسز کی حکومت قبول کر لی تھی۔ کہ اتنے میں مصری لشکر نے آ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ ۴۷۰ھ میں سلطان ملک شاہ سلجوقی نے تتش سلجوقی کو بلاد شام کی حکومت سپرد کر کے یہ حکم دیا کہ تم ملک شام کا جس قدر حصہ فتح کر لو گے۔ وہ تمہارا ملک سمجھا جائے گا۔ چنانچہ تتش نے حدود شام میں داخل ہو کر حلب پر فوج کشی کی اہل حلب نے مدافعت کی اور تتش نے حلب کا محاصرہ کر لیا۔ ادھر دمشق میں اتسز ابھی تک مصری لشکر کے محاصرے میں تھا۔ اس نے تتش کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میرا مصری فوجوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ میری مدد نہ کریں گے تو میں مجبوراً دمشق ان کے حوالے کر دوں گا۔ تتش نے فوراً دمشق کی جانب کوچ کر دیا۔ تتش کے آنے کی خبر سن کر مصری لشکر دمشق سے محاصرہ اٹھا کر مصر کی طرف بھاگ گیا۔ تتش نے دمشق پہنچ کر اتسز کو قتل کیا اور خود دمشق پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یہ واقعہ ۴۷۱ھ میں وقوع پذیر ہوا اس کے بعد حلب پر بھی تتش کا قبضہ ہو گیا۔ اور رفتہ رفتہ تمام ملک شام اس کے قبضے میں آ گیا۔ یہ حالات سن کر بدر جمالی نے مصر میں فوجیں جمع کیں اور ایک لشکر جرار لے کر دمشق پر حملہ آور ہوا۔ مگر تتش کے مقابلے میں ناکام رہ کر واپس ہوا۔ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ مصری فوجوں نے شام پر حملہ کیا۔ مگر ناکام واپس گئیں۔ ۴۸۴ھ میں جزیرہ صقلیہ کو عیسائیوں نے مسلمانوں کے قبضے سے نکال لیا۔ ماہ ربیع الاول ۴۸۷ھ میں بدر جمالی نے اسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کے بعد ۸ ذی الحجہ ۴۸۷ھ کو مستنصر عبیدی بھی فوت ہو گیا۔ مستنصر کا ابتدائی زمانہ بہت خطرناک تھا۔ اس کی سلطنت کے مٹنے اور دولت عبیدیین کے فنا ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ کہ بدر جمالی نے اس سلطنت کو برباد ہونے سے بچا لیا۔ مستنصر کے تین بیٹے احمد‘ نزار اور ابوالقاسم تھے۔ مستنصر نے نزار کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ حسن بن صباح کی مستنصر سے بیعت کہتے ہیں کہ مستنصر کے عہد حکومت میں حسن بن صباح عراق سے سودا گروں کے لباس میں وارد مصر ہوا۔ اور مستنصر کی خدمت میں حاضر ہو کر مستنصر سے بیعت ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ کے بعد کس کو امام مانوں۔ مستنصر نے کہا کہ میرے بعد میرا بیٹا نزار تمہارا امام ہو گا۔ اس کے بعد حسن بن صباح نے مستنصر سے اجازت حاصل کی۔ کہ ملک عراق میں آپ کی خلافت و امامت کی تبلیغ کروں۔ مستنصر نے اس کو اجازت دے دی۔ اور اپنا داعی بنا کر روانہ کیا۔ حسن بن صباح نے عراق میں آ کر دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ اور رفتہ رفتہ قلعہ الموت پر قابض ہو گیا۔ حسن بن صباح اور اس کی قائم کی ہوئی سلطنت کا حال آگے اپنے موقعہ پر بیان ہو گا۔ مستنصر نے بدر جمالی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے محمد ملک کو وزارت کا عہدہ عطا کیا تھا۔ محمد ملک اور نزار کے درمیان ناراضی تھی۔ اس لئے مستنصر کی وفات کے بعد محمد ملک نے مستنصر کی بہن کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ تخت سلطنت پر ابوالقاسم کو بٹھایا جائے۔ چنانچہ