تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے کے بعد گرفتار ہوا‘ مگر گرفتار و مقید ہونے کے چند ہی روز بعد عبدالرحمن بن حسن کلبی کی سعی و کوشش سے ابوالخطاب حسام بن ضرار کلبی قید سے رہا ہو گیا‘ اس نے قید سے رہا ہو کر اور قرطبہ سے نکل کر اپنے ہم وطن یمنی قبائل کو اپنے گرد فراہم کرنا شروع کیا‘ چنانچہ یمنی قبائل بہ تعداد کثیر ابوالخطاب کے گرد جمع ہو گئے‘ ادھر ضمیل اور ثعلبہ بن سلامہ بھی مقابلہ پر مستعد ہوئے‘ یہ وہ زمانہ تھا کہ خلافت دمشق عباسیوں کی سازش کا شکار بن کر درہم و برہم ہو رہی تھی‘ آخری اموی خلیفہ مروان الحمار عباسی لشکر کے مقابلہ میں شکست کھا کر آوارہ ہو چکا تھا‘ اندلس کی طرف توجہ کرنے کا کسی کو ہوش نہ تھا‘ افریقہ و مصر وغیرہ بھی خاندان خلافت کی اس بربادی کے سلسلے میں نقش حیرت بنے ہوئے تھے‘ اندلس میں ۱۲۷ھ سے ۱۲۹ھ تک ابوالخطاب دشمنوں کے ہاتھ میں دوبارہ گرفتار ہو کر مقتول ہوا‘ ۱۲۸ھ میں ثعلبہ بن سلامہ اندلس سے افریقہ عبدالرحمن بن حبیب والی افریقہ کی خدمت میں چلا گیا تھا‘ ابوالخطاب کے مقتول ہونے کی خبر سن کر گورنر افریقہ نے ثعلبہ بن سلامہ کو اندلس کا امیر بنا کر روانہ کیا‘ ۱۲۹ھ میں ثعلبہ بن سلامہ اندلس میں آیا اور عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ ثعلبہ بن سلامہ باردوم ماہ رجب ۱۲۹ھ میں ثعلبہ بن سلامہ نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور ضمیل بن حاتم چونکہ اس کا دوست اور قابو یافتہ تھا وہ مہمات امارت کے انجام دینے میں سب سے زیادہ دخیل اور بطور وزیر رہا‘ ثعلبہ بھی چوں کہ یمنی تھا‘ اس لیے ضمیل بن حاتم نے کوشش کر کے یمنی اور دوسرے عرب قبائل میں صلح کرا دی‘ چند ہی روز کے بعد ثعلبہ بن سلامہ کا انتقال ہو گیا‘ اہل اندلس چونکہ پہلے ہی سے اپنے لیے خود امیر منتخب کر لینے کے عادی تھے جیسا کہ چند امیروں کا ذکر اوپر آ چکا ہے‘ آج کل چونکہ مرکز خلافت میں بدنظمی تھی اس لیے انہوں نے اپنی امارت کے لیے خود کسی شخص کا انتخاب کر لینے میں تامل نہیں کیا اور یوسف بن عبدالرحمن فہری کو جس کا اوپر ذکر آ چکا ہے اپنا امیر بنا لیا‘ یوسف کی پرانی خدمات‘ اور شہرت نے اس کی سفارش کی اور کسی کو اس انتخاب میں تامل نہ ہوا۔ یوسف بن عبدالرحمن فہری چونکہ ملک اندلس کا مرکز خلافت سے آج کل کوئی خصوصی تعلق نہ رہا تھا‘ نیز یہاں ہر قوم اور ہر قبیلے کے مسلمان آباد تھے اس لیے چند ہی روز کے بعد اندلس میں کشمکش اور ہلچل سی پیدا ہونے لگی‘ یوسف بن عبدالرحمن نے ضمیل بن حاتم کو جو سب سے زیادہ طاقتور شخص تھا‘ اور یوسف کے انتخاب پر دل ہی دل میں کبیدہ خاطر معلوم ہوتا تھا‘ صوبہ طیطلہ کا حاکم بنا دیا عیسائیوں نے صوبہ اربونیہ کے حاکم عبدالرحمن بن علقمہ کو بغاوت پر ابھار دیا‘ مگر عبدالرحمن بن علقمہ قبل اس کے کہ مخالفت کے لیے نکلے قتل کر دیا گیا‘ اس کے بعد دوسرے صوبہ دار ابن الولید کو عیسائیوں نے ابھارا اور ایک بڑی تعداد عیسائیوں کی اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئی‘ چنانچہ اس نے شہر شبیلیہ کو فتح کر کے قرطبہ کا رخ کیا‘ امیر یوسف نے مقابلہ کر کے اس کو شکست دی اور گرفتار کر کے قتل کر ڈالا‘ اس کے بعد ایک اور سردار عمر بن عمرو نے علم بغاوت بلند کیا‘ وہ بھی ناکام رہا۔ اندلس کی صوبوں میں تقسیم ان بغاوتوں کے فرو کرنے کے بعد یوسف نے ملک کا اندرونی انتظام درست کیا‘ خاص