تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اس کا نام دریافت کیا‘ جب نام سنا تو عبدالرحمن خوش ہو گیا اور جوش مسرت میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور غالب ہوں گے‘ اس کے بعد عبدالرحمن نے مطلق تامل نہیں کیا‘ فوراً جہاز میں سوار ہو گیا اپنے چند جاں نثاروں کو جو سبطہ میں موجود اور اس سے محبت و ہمدردی کا تعلق رکھتے تھے ہمراہ لیا اور اندلس کے ساحل پر جا اترا‘ وہاں پہلے سے ہزار ہا لوگ استقبال کے لیے موجود تھے جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے۔ قرطبہ پر عبدالرحمن کا قبضہ عبدالرحمن کے اندلس میں پہنچتے ہی ہوا خواہان بنو امیہ اور اہل شام سن سن کر دوڑے اور عبدالرحمن کی اطاعت و فرماں برداری کے حلف اٹھائے‘ اس کے بعد ارد گرد کے شہروں اور قصبوں پر قبضہ شروع ہوا موسم برسات کے آ جانے کے سبب یوسف جلد قرطبہ کی طرف نہ آ سکا‘ اس لیے عبدالرحمن کو یوسف کی فیصلہ کن جنگ کے لیے سات مہینے کی مہلت مل گئی‘ آخر عیدالاضحیٰ کے روز لڑائی ہوئی اور دار السلطنت قرطبہ پر عبدالرحمن کا قبضہ ہوا۔ جب اس لڑائی میں فتح حاصل ہوئی تو یمنی لوگوں کے ایک سردار ابوالصباح نامی نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یوسف سے ہم بدلہ لے چکے ہیں‘ اب موقعہ ہے کہ اس آدمی نوجوان یعنی عبدالرحمن کو قتل کر دو اور بجائے اس کے یہاں امویوں کی حکومت قائم ہو اپنی قوم کی حکومت قائم کرو‘ مگر چوں کہ عبدالرحمن کے لشکر میں شامیوں اور بربریوں کی تعداد کافی تھی اس لیے علانیہ یمنی لوگ کوئی مخالفت یا بغاوت نہ کر سکے اور خاموش ہو کر خفیہ طور پر عبدالرحمن کی ذات پر حملہ کرنے کی تدبیر سوچنے لگے‘ اتفاق سے عبدالرحمن کو بھی ان لوگوں کے ارادے کا حال معلوم ہو گیا اس نے صرف یہ کیا کہ اپنا ایک باڈی گارڈ یعنی محافظ دستہ قائم کر لیا اور بظاہر چشم پوشی اور در گذر سے کام لیا اور چند مہینے کے بعد ابوالصباح کو اس کی کسی غلطی کی سزا میں قتل کرا دیا۔ عبدالرحمن کے عہدہ دار عبدالرحمن بن امیہ چونکہ نوعمر اور اس ملک میں ایک اجنبی شخص تھا‘ لہٰذا یہاں کے امراء‘ یہاں کے عمال‘ یہاں کی رعایا یہاں کے قبائل اور ان کی خصوصیات سے اس کو پوری واقفیت اور آگاہی نہ تھی عبدالرحمن کی حکومت کے شروع ہوتے یہ حکومت دسرداری کے عہدوں پر جو لوگ مقرر و مامور ہوئے‘ ان میں بعض ایسے بھی تھے جو اہل اندلس کی ناراضی کا باعث ہوئے‘ بعض ایسے اشخاص تھے جن کو توقع تھی کہ ہم کو بڑے بڑے عہدے ملیں گے لیکن ان کو ان کی توقع کے موافق وہ عہدے نہیں ملے‘ اس طرح ایک بڑی تعداد ملک میں ایسی پیدا ہو گئی جو عبدالرحمن کی حکومت سے بھی کبیدہ خاطر اور ملول ہوئی‘ علاوہ ازیں یوسف فہری سابق امیر اندلس اور ضمیل بن حاتم کے دوست احباب اور متعلقین تو ناخوش تھے ہی۔ بغاوتیں عبدالرحمن بن معاویہ اگرچہ کسی گروہ اور کسی فریق سے خصوصی تعلق نہ رکھتا تھا اور وہ سب سے یکساں برتائو کرنا چاہتا تھا مگر جو حالات پہلے سے اندلس میں رونما تھے ان کا یہ اثر ہوا کہ عبدالرحمن کو اپنی حکومت کے شروع میں بغاوتوں اور سرکشیوں کا مقابلہ کرنا پڑا‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یوسف فہری سابق امیر اندلس معاہدہ کے