تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وجود کا امکان مؤرخین نے تسلیم کیا ہے۔ اور اسی لیے نپولین بونا پارٹ کو بعض لوگوں نے عربی النسل بیان کیا ہے۔ اندلس کی اسلامی حکومت کی مختصر تاریخ بیان ہو چکی ہے اور اب ہم کو دوسرے ملکوں کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ لیکن اندلس کی تاریخ کے ختم کر لینے کے بعد ہم کو ایک غلط انداز اور سرسری نگاہ ضرور ڈالنی چاہیے۔ اور دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں نے اندلس میں حکومت کر کے برا عظم یورپ کو کس قدر نفع یا نقصان پہنچایا ہے۔ اندلس کی اسلامی حکومت پر ایک نظر خیر القرون کے عرب حکمرانوں کی طرح اندلس میں بھی عربوں کی حکومت اگرچہ بظاہر شخصی نظر آتی تھی۔ مگر اس میں جمہوریت کا رنگ بہت زیادہ شامل تھا۔ خلیفہ کا حکم اور شریعت کا قانون ہر فرد بشر پر یکساں عامل تھا۔ ان حکمرانوں میں نہ موروثی جاگیردار تھے نہ موروثی امراء۔ عبدالرحمن ثانی اموی سلطان پر قاضی کی کچہری میں ایک عیسائی نے دعویٰ کیا۔ اور قاضی کے حکم کی اس عظیم الشان سلطان کو اسی طرح تعمیل کرنی پڑی۔ جس طرح ایک غلام کو تعمیل کرنی پڑتی۔ قاضی قانون شرع کے موافق خلیفہ کو سزا دینے کی قدرت رکھتا تھا۔ کوتوالی کا انتظام نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ ہر بازار میں ایک محتسب ہوتا تھا۔ جو تجارت پیشہ لوگوں کے کاروبار کی نگرانی کرتا تھا۔ ہر شہر و قصبے میں شفا خانے اور دوا خانے کھلے ہوئے تھے۔ سڑکیں اور نہریں مسلمانوں نے تمام ملک میں جال کی طرح بچھادی تھیں۔ خلیفہ ہشام نے دریائے وادی الکبیر کا نہایت شاندار اور خوبصورت پل بنایا اسی طرح جابجا دریائوں کے پل بن گئے تھے۔ فنون جنگ اور آئین فوج کشی میں عام طور پر مسلمان ساری دنیا سے زیادہ شائستہ تھے۔ اندلس کے مسلمانوں نے قلعہ شکنی کے آلات ایجاد کیے۔ یورپ کے وحشیوں کو جو ہمیشہ فتح مند ہونے پر شہروں اور بستیوں کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتے۔ اور عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں تک کو تہ تیغ کر دیتے تھے۔ اپنے طرز عمل سے مسلمانوں نے آٹھ سو برس تک شائستگی کی تعلیم دی کہ فتح یاب ہونے پر بے گناہ رعایا کو کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچانا چاہیے۔ زراعت کو مسلمانوں نے اس قدر ترقی دی تھی۔ کہ یہ ایک مکمل فن بن گیا تھا ہر میوہ دار درخت اور زمین کی خاصیت و ماہیت سے واقفیت حاصل کی۔ اندلس کے ہزاروں لاکھوں میل مربع رقبوں کو جو بنجر اور ویران پڑے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے میوہ دار درختوں اور سر سبز و شاداب لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ چاول نیشکر۔ روئی۔ زعفران۔ انار۔ آڑو‘ شفتالو وغیرہ جو آج کل اندلس میں بکثرت پیدا ہوتے ہیں مسلمانوں ہی کے طفیل اندلس بلکہ تمام یورپ کو نصیب ہوئے۔ اندلوسیہ اور اشبیلیہ کے صوبوں میں زیتون اور خرما کی کاشت کو بڑی ترقی دی۔ سریش‘ غرناطہ اور مالقہ کے علاقوں میں انگوروں کی بڑی پیدا وار ہوتی تھی۔ زراعت کے ساتھ مسلمانان اندلس نے معدنیات کی تلاش میں بھی کوتاہی نہیں کی۔ سونا۔ چاندی۔ لوہا۔ فولاد۔ پارہ۔ کہربا۔ تانبا۔ یاقوت اور نیلم وغیرہ کی کانیں دریافت کیں۔ اور یہ چیزیں بکثرت پیدا ہونے لگیں۔ غرناطہ کی سلطنت اندلس میں مسلمانوں کی آخری نشانی تھی۔ لیکن اس چھوٹی سی سلطنت نے بھی فن تعمیر اور قدر دانی علوم کے متعلق بڑی بڑی عظیم الشان یاد گاریں چھوڑی ہیں۔ مسلمانوں نے ایسا عجیب و غریب سیمنٹ ایجاد کیا کہ قصر حمراء جو سلطنت غرناطہ کی نشانی دنیا میں باقی ہے۔ آج تک اپنے مصالحہ کی پختگی سے سیاحوں کو حیران کر دیتا ہے۔ قصر الحمراء کو شاہان غرناطہ نے بصرف زرکثیر شہر کے قریب ایک نہایت بلند