تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لگا رہتا تھا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ صوبہ جلیقیہ کی نوزائیدہ عیسائی ریاست نے فرانسیسیوں اور اندلسی واقعہ پسندوں کی پشت و پناہی پر علامات سرکشی ظاہر کرنا شروع کئے‘ سلطان ہشام نے بلا توقف عبدالکریم بن عبدالواحد بن مغیث کو بلاد جلیقیہ کی طرف روانہ کیا‘ لشکر اسلام نے جلیقیہ میں پہنچ کر سرکشوں کو نیچا دکھایا اور ان سے اقرار اطاعت لے کر واپس آیا‘ ابھی یہ بغاوت فرو نہ ہوئی تھی کہ بربریوں نے متحد ہو کر علم بغاوت بلند کیا‘ سلطان ہشام نے ان کی سرکوبی پر عبدالقادر بن ابان بن عبداللہ خادم سیدنا امیر معاویہ t کو روانہ کیا‘ عبدالقادر نے سخت معرکہ کے بعد بربری جمعیت کو منتشر اور ہزارہا کو خاک و خون میں ملایا‘ یہ واقعہ ۱۷۸ھ کا ہے‘ ۱۷۹ھ میں اہل جلیقیہ نے فرانسیسیوں کے ابھارنے سے پھر سرکشی کا اظہار کیا‘ سلطان نے عبدالملک بن عبدالواحد بن مغیث کو مع فوج اس طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ علاقہ جلیقیہ میں ہوتے ہوئے ملک فرانس کے اندر داخل ہو کر اس اسلامی لشکر سے ملو جو دوسری طرف سے فرانس میں داخل ہو گا‘ چنانچہ ایک لشکر دوسرے راستے سے فرانس میں بھیجا گیا‘ جلیقیہ کے عیسائی رئیس اوفونش نے اسلامی لشکر کی آمد کا حال سن کر تمام راستے اور شہر خالی کر دئیے اور خود اسلامی لشکر کے آگے آگے پہاڑوں میں بھاگتا اور چھپتا پھرا‘ چوں کہ عبدالملک جلیقیہ میں زیادہ دنوں نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا‘ لہٰذا وہ باغی سردار کو مفرور دیکھ کر فرانس کی حدود میں داخل ہوا اور دوسرے اسلامی لشکر سے مل کر ملک فرانس کے اکثر شہروں اور قلعوں کو فتح کر کے مسمار کیا اور فتح و فیروزی کے ساتھ قرطبہ کی جانب واپس آیا۔ وفات ماہ صفر ۱۸۰ھ میں سلطان ہشام بن عبدالرحمن نے سات سال چند ماہ حکومت کرنے کے بعد چالیس سال چار ماہ کی عمر میں وفات پائی۔ ہشام کی زندگی پر تبصرہ مسجد قرطبہ کی تعمیر میں اسی ہزار دینار امیر عبدالرحمن نے صرف کئے تھے اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار دینار سلطان ہشام نے اس مسجد کی تعمیر و تکمیل میں خرچ کئے‘ سلطان ہشام اپنے باپ کی طرح سفید مگر نہایت سادہ اور کم قیمت لباس پہنتا تھا اس کو شکار کا شوق تھا‘ لیکن نہ ایسا کہ امور سلطنت اور دین و ملت کے کاموں میں حارج ہو آخر ایّام حیات میں اس کو بھی ترک کر دیا تھا‘ حاجت مندوں کے لیے اس کا دربار ہمیشہ کھلا ہوا تھا‘ مظلوموں کو اپنی داد رسی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کبھی پیش نہیں آتی تھی‘ محتاجوں کی خبر گیری میں وہ خود راتوں کو اپنا آرام ترک کر دیتا تھا‘ مسافروں کو خود لے جا کر کھانا کھلاتا‘ اندھیری راتوں میں شہر کے گلی کوچوں میں گشت کرتا اور محتاجوں‘ بیوائوں‘ مسکینوں کی دستگیری میں بڑا لطف پاتا‘ چوروں‘ ڈاکوئوں اور مجرموں سے جو زر جرمانہ وصول ہوتا وہ سرکاری خزانہ میں داخل نہ ہوتا بلکہ رعایا ہی کے سود و بہبود میں صرف کیا جاتا‘ لڑائیوں میں جو لوگ اتفاقاً عیسائیوں کی قید میں چلے جاتے ان کو سرکاری خزانہ سے فدیہ دے کر آزاد کرا دیا جاتا‘ سلطان ہشام نے قسم کھانے کو ایک بھی مسلمان عیسائیوں کی قید میں باقی نہ چھوڑا سب کو آزاد کرا لیا تھا‘ اندلس میں ایک مسلمان نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ اس کے ترکہ سے ایک مسلمان قیدی عیسائیوں کی قید سے آزاد کرایا جائے‘ چنانچہ تمام عیسائی ممالک کو چھان مارا مگر کوئی مسلمان عیسائیوں کی قید میں نہ ملا کیونکہ سلطان ہشام نے پہلے ہی تمام مسلمانوں