تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رخصت کیا کہ غرناطہ کی سلطنت پر قبضہ کر لے یوسف نے فرماں برداری کا اقرار کیا اور روانہ ہو کر حدود سلطنت غرناطہ میں عیسائیوں کی مدد سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ عیسائیوں کو اب ہر قسم کا اطمینان تھا کیونکہ دونوں مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ آزما ہو گئے تھے اور وہ دور سے تماشا دیکھ رہے تھے۔ سلطان محمد ہشتم نے اپنے وزیر یوسف کو یوسف ابن الاحمر کی سر کوبی پر مامور کیا۔ ۸۳۹ھ میں وزیر یوسف ایک لڑائی میں یوسف ابن الاحمر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ یہ خبر جب غرناطہ میں پہنچی تو وہاں کی رعایا میں سخت بے چینی پیدا ہوئی۔ اور محمد ہشتم کے خلاف رائے زنی ہونے لگی۔ محمد ہشتم یہ رنگ دیکھ کر قصر حمراء کا تمام خزانہ ہمراہ لے کر غرناطہ سے مالقہ کی طرف چلا گیا۔ یوسف بن الاحمر اس کے بعد ہی یوسف ابن الاحمر غرناطہ پر آ کر قابض و متصرف ہو گیا۔ غرناطہ میں تخت نشینی کی رسم ادا کر کے بادشاہ قسطلہ کو اقرار فرماں برداری کا عریضہ بھیجا اور محمد ہشتم کی گرفتاری کے لیے مالقہ کی جانب فوج روانہ کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ ابھی مالقہ کی جانب فوج روانہ نہ کر سکا تھا کہ چھ مہینے کی بادشاہت کے بعد یوسف ابن الاحمر فوت ہو گیا۔ اس کے بعد محمد ہشتم اس کے مرنے کی خبر سنتے ہی مالقہ سے غرناطہ میں آ کر تیسری مرتبہ تخت نشین ہوا۔ امیر عبدالحق کو اپنا وزیر اور امیر عبدالبر کو اپنا سپہ سالار بنایا۔ عیسائیوں نے پھر فوج کشی کی اور سپہ سالار غرناطہ نے ان کو شکست دے کر واپس بھگا دیا۔ اس شکست سے عیسائیوں کی ہمت پست ہو گئی۔ اور غرناطہ کی اسلامی سلطنت کا رعب پھر قائم ہو گیا۔ افسوس کہ اس کامیابی کے بعد جب کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت کے بڑھانے اور اپنی حالت سدھارنے کا موقعہ حاصل تھا۔ پھر خانہ جنگی کے سامان پیدا ہو گئے سلطان محمد ہشتم کا ایک بھتیجا ابن عثمان المیریہ کا حاکم مقرر تھا۔ اس نے اپنے چچا کے خلاف غرناطہ کی رعایا کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ غرناطہ میں لوگ میری طرف داری کریں گے۔ تو فوراً غرناطہ میں آ کر اور باغیوں کا سردار بن کر قصر الحمراء پر قابض ہو گیا اور محمد ہشتم کو تیسری مرتبہ تخت سے اتار کر قید کر دیا۔ امیر عبدالبر سپہ سالار نے غرناطہ سے بھاگ کر ہوا خواہوں کو جمع کیا اور سلطان محمد ہشتم کی رہائی کی تدبیریں کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں سلطان محمد ہشتم کی رہائی کے مطالبہ کا اعلان کروں گا۔ تو ممکن ہے کہ ابن عثمان جو غرناطہ میں تخت نشین ہو چکا ہے۔ محمد ہشتم کو قتل کر دے۔ لہٰذا اس نے محمد ہشتم کے دوسرے بھتیجے ابن اسماعیل کو اپنا شریک کار بنانے اور سلطنت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دی۔ ابن اسماعیل فوراً رضا مند ہو گیا۔ اور بادشاہ قسطلہ سے خط و کتابت کرنے اور اجازت لینے کے بعد عبدالبر سے آ ملا۔ عیسائیوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا۔ ایک طرف ابن اسماعیل نے اور دوسری طرف شاہ قسطلہ نے سلطان ابن عثمان کی حدود پر فوج کشی شروع کی۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا۔ ۸۵۲ھ میں شاہ ارغون اور شاہ اربونیہ (دونوں عیسائی تھے)۔ نے شاہ قسطلہ کے خلاف فوج کشی کی۔ اس طرح شاہ قسطلہ اپنی مصیبت میں گرفتار ہوا۔ اور مسلمانوں کی طرف سے فوجیں ہٹا لیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن اسماعیل بھی اپنے حلیف شاہ قسطلہ کے خانہ جنگی سے فارغ ہونے تک خاموش رہا۔ سلطان ابن عثمان کو جب یہ معلوم ہوا کہ شاہ ارغون اور شاہ اربونیہ سلطنت قسطلہ کے