تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوج لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ مگر اس سے غلطی یہ ہوئی کہ قرطبہ پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں مستعین پر حملہ آور ہوا۔ اس لڑائی میں اس کو شکست فاش حاصل ہوئی۔ اور بہت سے ہمراہیوں کو قتل کرا کر صرف چار سو آدمیوں کے ساتھ قرطبہ کی جانب بھاگا واضح جب قرطبہ پہنچا اور مستعین کے حملہ آور ہونے کا حال مہدی کو معلوم ہوا تو وہ فوج لے کر مستعین کے مقابلہ کو قرطبہ سے باہر نکلا اور میدان سرادق میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ سخت خوں ریزی کے بعد مہدی کو شکست ہوئی۔ بیس ہزار اہل قرطبہ میدان سرادق میں مقتول ہوئے۔ بقیتہ السیف کو لیے ہوئے مہدی طیطلہ کی جانب بھاگا۔ اور مستعین فتح مند ہو کر قرطبہ میں داخل ہوا اور تخت خلافت پر جلوس کیا۔ یہ فتح چونکہ عیسائیوں کی مدد سے مستعین کو حاصل ہوئی تھی۔ لہٰذا عیسائیوں کی خوب خاطر مدارات ہوئی۔ اور قرطبہ کے علماء و فضلاء کا بہت بڑا حصہ ان عیسائی و حشیوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ خلیفہ مہدی نے طیطلہ میں پہنچ کر عیسائی بادشاہ اوفونش سے پھر خط و کتابت کی اور اس کو اپنی مدد پر آمادہ کیا۔ عیسائی بادشاہ اس موقع کی اہمیت کو خوب پہچانتا تھا۔ اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس وقت مسلمانوں کو آپس میں لڑا لڑا کر کمزور کر دینے کا نہایت ہی اچھا موقع حاصل ہے چنانچہ اس نے مہدی سے فوراً عہدنامہ لکھا کر جس قدر فوج اس کی مدد کو بھیج سکتا تھا بھیج دی اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کی کہ جو فوج مستعین کے ہمراہ گئی تھی وہ ابھی تک واپس نہیں آئی ہے۔ مہدی عیسائیوں کی امداد لے کر قرطبہ پر حملہ آور ہوا۔ مقام عقبتہ البقر میں نہایت خوں ریز جنگ کے بعد مستعین کو شکست حاصل ہوئی اور مہدی دوبارہ فاتحانہ قرطبہ میں داخل ہو کر تخت خلافت پر متمکن ہوا۔ عیسائیوں کی وہ فوج جو مستعین کے ساتھ تھی۔ مہدی کے لشکر میں شامل ہو گئی۔ اور اس لڑائی میں بھی زیادہ تر مسلمان اور اہل قرطبہ ہی مارے گئے۔ مستعین نے قرطبہ سے نکل کر تمام ملک میں لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ ادھر مہدی کے قرطبہ میں داخل ہونے کے بعد عیسائی لشکر نے باشندگان دارالخلافہ کا اپنی لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت سے ناک میں دم کر دیا۔ مہدی قرطبہ میں داخل ہوتے ہی عیش و عشرت میں مصروف ہو گیا۔ اس طرح تمام ملک اندلس جو امن و امان کا گہوارہ تھا بدامنی کا گھر بن گیا اور ہر ایک وضیع و شریف کو اپنی جان و مال کا بچانا دشوار ہو گیا۔ مہدی کی معزولی واضح عامری مہدی کے ساتھ تھا۔ اس نے جب ملک کو اس طرح تباہ اور حکومت اسلامیہ کو برباد ہوتے دیکھا تو شہر قرطبہ کے با اثر لوگوں سے مشورہ کر کے مہدی کے معزول اور خلیفہ ہشام ثانی کے دوبارہ تخت نشین کرنے کی تیاری کی چنانچہ ۱۱ ذی الحجہ ۴۰۰ھ کو ہشام دوبارہ قید خانہ سے نکال کر تخت خلافت پر بٹھایا گیا۔ اور مہدی کو سر دربار ہشام کے روبر و غیر نامی غلام نے قتل کیا۔ ہشام کی دوبارہ تخت نشینی واضح عامری کو جو منصور بن ابی عامر کا آزاد کردہ غلام تھا۔ حجابت یعنی وزارت عظمیٰ کا عہدہ ملا۔ واضح نے مہدی کا سر مستعین کے پاس وادی شوس میں بھیجا۔ اور لکھا کہ اب خلیفہ ہشام دوبارہ تخت خلافت پر متمکن ہو چکا ہے۔ اور مہدی قتل کر دیا گیا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ تم خلیفہ وقت کی اطاعت اختیار کرو۔ اور طریق سرکشی سے بار رہو۔ لیکن چونکہ مستعین کے ساتھ اس غارت گری میں ابن اوفونش عیسائی بادشاہ بھی