تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سردار نے عیسائیوں کو شکست دے کر بھگا دیا‘ ادھر سیر بن ابی بکر نے اشبیلیہ کو فتح کر کے معتمد کو مع اہل خاندان قید کر کے افریقہ بھیج دیا‘ جہاں وہ نظر بندی کی حالت میں رہنے لگا‘ اور ۴۸۸ھ ماہ ربیع الاول میں فوت ہوا۔ تمام اندلس پر یوسف بن تاشفین کا قبضہ ۴۸۵ھ میں تمام اسلامی اندلس یوسف بن تاشفین کے تحت و تصرف میں آ گیا‘ اور طوائف الملوکی کا خاتمہ ہو کر یوسف بن تاشفین بادشاہ مرابطین کے وائسرائے اور گورنر اندلس پر حکمرانی کرنے لگے‘ اس طرح وہ ملک جو پارہ پارہ ہو کر عیسائیوں کے قبضے میں جانے والا تھا‘ مراکش کے مسلمان بادشاہ کے قبضہ میں آ کر محفوظ ہو گیا اور عیسائیوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں‘ اب بھی عیسائی جزیرہ نما کے شمالی علاقوں پر قابض تھے‘ لیکن اندلس کا بڑا حصہ اور آباد و زرخیز جنوبی علاقہ مسلمانوں کے زیر حکومت تھا‘ یوسف بن تاشفین کو ۴۷۹ھ میں خلیفہ بغداد مقتدی بامر اللہ نے امیر المسلمین کا خطاب اور خلعت و علم بھیجا تھا۔ یوسف بن تاشفین کی وفات اندلس پر قبضہ حاصل ہونے کے بعد امیر المسلمین یوسف بن تاشفین پندرہ سال تک زندہ رہا‘ اور محرم ۵۰۰ھ میں فوت ہوا۔ یہ زمانہ اندلس میں امن و امان کا گزرا۔ اگرچہ اندلس کے عربی النسل باشندے مرابطین کی حکومت و سلطنت سے اس لیے کبیدہ خاطر رہے۔ کہ وہ بربری لوگوں کو اپنے اوپر حکمران دیکھنا پسند نہ کرتے تھے‘ لیکن یہ ان کی غلطی تھی۔ اگر بربری مسلمان ان پر حکمران نہ ہوتے تو ان کو عیسائیوں کی غلامی کرنی پڑتی۔ ابوالحسن علی بن یوسف بن تاشفین امیر المسلمین یوسف بن تاشفین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابوالحسن علی بن یوسف بن تاشفین ۳۳ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ ۵۰۳ھ میں علی بن یوسف نے طیطلہ کا محاصرہ کیا یہ شہر اپنی مضبوط فصیل اور محل وقوع کی خوبی کے سبب فتح نہ ہو سکا۔ مگر علی بن یوسف نے وادی الحجارہ اور اس نواح کے اکثر شہروں کو فتح کر لیا۔ اسی سال لشبونہ (لسبن) اور پرتگال کے بقیہ شہروں کو بھی عیسائیوں سے چھین لیا گیا۔ علی بن یوسف نے اپنے بھائی تمیم بن یوسف کو اندلس کا نائب السلطنت (وائسرائے) مقرر کیا تھا۔ تمیم نے الفانسو اول بن رومیر بادشاہ برشلونہ کی جنگی تیاریوں کا حال سن کر اس کی پیش قدمی کو اپنے حملے سے روک دیا۔ اور سرقسطہ کو عیسائیوں سے فتح کر کے اسلامی مقبوضات کو وسیع کیا۔ بادشاہ برشلونہ نے شاہ فرانس کو اپنی مدد پر آمادہ کر کے ۵۱۲ھ میں سرقسطہ کا محاصرہ کر لیا۔ عیسائیوں کی فوجیں سامان حرب اور کثرت تعداد کے سبب اس قدر زیادہ طاقتور تھیں کہ سرقسطہ کے مسلمان تاب مقاومت نہ لا سکے۔ سامان رسد کی نایابی سے جب جان پر آبنی تو انہوں نے شہر کا دروازہ کھول دیا۔ اس طرح سرقسطہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اور اس صوبے کے دوسرے شہروں اور قلعوں کو بھی عیسائیوں نے فتح کر لیا یہ رنجید خبر جب علی بن یوسف کو پہنچی تو وہ مراکش سے ۵۱۳ھ میں اندلس آیا اور اشبیلیہ و قرطبہ ہوتا ہوا سرقسطہ پہنچا اور تمام اس علاقے کو جو عیسائیوں نے فتح کیا تھا۔ فتح کر کے اور اچھی طرح عیسائیوں کو سزا دے کر اور اقرار فرماں برداری لے کر ۵۱۵ھ میں واپس مراکش پہنچا۔ الفانسو چہارم جس نے طیطلہ کو اپنا دالسلطنت بنا لیا تھا ۵۱۳ھ میں فوت ہو گیا تھا۔ لیکن الفانسو اول بادشاہ