تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنا چاہتے ہیں تو مجھ کو آج ہی اٹھالے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچالے مزید کارروائی کی کہ زہر میں بجھے ہوئے استرے سے جمشید کی حجامت بنائی اور اس طرح بھی اس کی جلد کے نیچے زہر کا اثر پہنچا دیا تھا‘ جس روز جمشید نے یہ مذکورہ دعا مانگی اسی روز اس کی روح نے اس جسم خاکی کو چھوڑ کر عالم باقی کی طرف پرواز کی یہ واقعہ ۹۰۱ھ کا ہے جمشید نے ۳۶ سال کی عمر میں تیرہ برس قید فرنگ کے مصائب جھیل کر وفات پائی اس کی لاش سلطان بایزید ثانی کی درخواست کے موافق عیسائیوں نے بایزید کے پاس بھیج دی اور بایزید نے اس کو بروصہ میں دفن کرایا‘ سلطان بایزید ثانی نے پوپ اسکندر کو بھی وعدہ کے موافق روپیہ ادا کر دیا اور اس حجام مصطفیٰ نامی کو بلا کر اپنے ہاں نوکر رکھا اور پھر ترقی دے کر اس کو وزارت کے عہدہ جلیلہ تک پہنچا دیا‘ تعجب ہے کہ سلطان بایزید ثانی نے ابتدائی ایام میں تو اس ترکی سردار کو قتل کرا دیا تھا‘ جس نے جمشید کو راستے میں لوٹ لیا تھا مگر اب تیرہ سال کے بعد اس نے اس حجام کی ایسی قدر و عزت بڑھائی۔ جس نے جمشید کو قتل کر کے اس ترکی سردار سے زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا‘ سلاطین عثمانیہ کے سلسلہ میں شہزادہ جمشید کی دل خراش داستان کو اس لیے مناسب تفصیل کے ساتھ اس جگہ درج کر دیا گیا ہے کہ اس داستان سے اس زمانہ کے عیسائی بادشاہوں کی اخلاقی حالت پر ایک تیز روشنی پڑتی ہے اور صاف طور پر ان عیسائی فرماں روائوں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس طرح شہزادہ جمشید پر انہوں نے قبضہ کیا اور کس طرح اس سے فوائد حاصل کئے اور کس طرح اس کو قابو رکھنے پر حریص تھے‘ اور اپنے ان مادی اور نفسانی اغراض کے پورا کرنے میں کسی کو شرافت‘ انسانیت اور اپنے شاہانہ مرتبہ کے وقار کی پروا نہ تھی‘ ان کے دل میں رحم کا مادہ بھی نہ تھا اور ان پر سلطنت عثمانیہ کا اس قدر رعب طاری تھا اور وہ ایسے خائف و ترساں تھے کہ شہزادہ جمشید کے ذریعے سلطان عثمانی کو اپنے اوپر فوج کشی کرنے سے روکنے کی ذلت آمیز کوشش میں لگے ہوئے تھے‘ شہزادہ جمشید کی داستان کو یہاں ختم کر کے اب ہم کو سلطان بایزید ثانی کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے‘ جو اپنے باپ سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کے بعد تخت نشین ہوا۔ سلطان بایزید ثانی سلطان بایزید ثانی کی تخت نشینی کا حال اوپر بیان ہو چکا ہے اس سلطان نے ۸۸۶ھ میں تخت نشین ہو کر ۹۱۸ھ تک یعنی ۳۲ سال حکومت کی اس کو تخت نشین ہوتے ہی اپنے بھائی جمشید کا مقابلہ کرنا پڑا دو مرتبہ جمشید سے لڑائی ہوئی اور دونوں مرتبہ سلطان بایزید ثانی کامیاب ہوا‘ لیکن یہ کامیابی سلطنت عثمانیہ کے لیے کچھ مفید ثابت نہیں ہوئی‘ جمشید کا عیسائیوں کی قید اور قبضے میں چلا جانا باعث اس کا ہوا کہ سلطان بایزید ثانی کو ملک اٹلی اور روڈس پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی ادھر مصر کی مملوکی سلطنت سے تعلقات کشیدہ ہو گئے‘ شہزادہ جمشید چوں کہ اول مصر ہی کی سلطنت میں پناہ گزیں ہوا تھا اور جمشید کے متعلقین آخر تک مصر میں موجود تھے لہٰذا مملوکیوں نے جنوبی و مشرقی ایشیائے کوچک کے حصہ پر حملہ آوری کا سلسلہ جاری کر دیا اور ۸۹۰ھ میں سلطان بایزید ثانی کی فوج کو شکست فاش دے کر بعض سرحدی مقامات پر قبضہ کر لیا آخر بایزید نے مملوکیوں سے متواتر شکستیں کھانے کے بعد صلح کی اور اس صلح میں سلطان بایزید ثانی کا دب جانا اس طرح ثابت ہوا کہ اس نے وہ قلعے اور وہ شہر جن پر مملوکی قبضہ کر چکے تھے انہی کے قبضے میں رہنے دیئے۔ مگر یہ اقرار مملوکیوں