تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھا کہ غیر مصافی لوگوں سے قطعاً تعرض نہ کریں‘ اور بوڑھوں‘ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے‘ صرف ان لوگوں کو قتل کیا جائے جو مسلح ہو کر میدان جنگ میں آجائیں اور مسلمانوں کا مقابلہ کریں۔ طارق اور موسیٰ شمالی و مغربی صوبوں کو فتح کرتے ہوئے جبل البرتات تک پہنچے جبل البرتات کو عبور کر کے ملک فرانس میں داخل ہوئے‘ فرانس کا جنوبی علاقہ فتح کرنے کے بعد لشکر اسلام موسم سرما کی شدت اور سامان رسد کی نایابی کے سبب واپس جبل البرتات پر آیا‘ اور موسیٰ بن نصیر نے ارادہ کیا کہ سال آئندہ میں ملک فرانس کو فتح کر کے آسٹریا و اٹلی و بلقان کو فتح کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچوں گا‘ واپس آکر شمالی و مغربی صوبہ جلیقیہ یا گلیشیا جو ابھی تک مفروروں کے لئے جائے امن تھا فتح کیا۔ اندلس پر مکمل اسلامی قبضہ موسیٰ بن نصیر نے اندلس میں وارد ہو کر اور دارالسلطنت طیطلہ سے شمال کی جانب روانہ ہونے سے پہلے مغیث الرومی کو مع تحفہ و ہدایا اور ملک اندلس پر قبضہ ہونے کی خوشخبری دے کر دارالخلافہ دمشق کی جانب روانہ کیا تھا‘ مغیث الرومی دارالخلافہ سے اس وقت واپس آیا جب کہ صوبۂ جلیقیہ کو موسی بن نصیر فتح کر چکا تھا اور ملک اندلس کے قبضہ کو مکمل کر کے یورپ کے بقیہ ملکوں کو فتح کرنے کی تدابیر میں مصروف لگا‘ مغیث الرومی خلیفہ کے پاس سے موسیٰ کے نام جو حکم لے کر آیا اس نے موسیٰ بن نصیر کی اولوالعزمیوں کو افسردگی سے تبدیل کر دیا۔ خلیفہ ولید کا حکم اور موسیٰ بن نصیر کی طلبی خلیفہ نے موسیٰ بن نصیر کو فتح یورپ سے روک دیا اور بلا توقف حاضر دربار خلافت ہونے کا حکم دیا‘ اس حکم کی تعمیل میں امیر موسیٰ بن نصیر طارق و مغیث کو ہمراہ لے کر اور اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو سپرد کر کے اندلس سے مع سازوسامان روانہ ہوا‘ موسیٰ کے ساتھ اندلس کے خزانے‘ طلائی ظروف و زیورات یعنی مال غنیمت کا خمس اور بہت سے لونڈی غلام بھی تھے۔ اندلس سے موسیٰ مراکش ہوتا ہوا قیروان پہنچا اور قیروان سے مصر ہوتا ہوا دارالخلافہ دمشق کے قریب پہنچ گیا‘ یہ وہ زمانہ تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک مرض الموت میں گرفتار ہو گیا‘ موسیٰ بن نصیر دو برس اندلس میں رہا اور شروع ماہ جمادی الآخر ۹۶ھ میں ملک شام کی حدود میں داخل ہوا‘ ولید بن عبدالملک کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہونے والا تھا‘ سلیمان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ولید کی اس مرض سے جاں بری دشوار ہے اور موسیٰ بن نصیر قریب پہنچ گیا ہے تو اس نے موسیٰ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم ابھی دارالخلافہ میں داخل ہونے کی عجلت نہ کرو‘ غالباً سلیمان بن عبدالملک دلی عہد خلافت کا یہ منشا ہو گا کہ اگر خلیفہ ولید فوت ہونے والا ہے تو میری تخت نشینی کے وقت موسیٰ بن نصیر مع مال غنیمت میرے دربار میں حاضر ہو اور اس طرح میری تخت نشینی کی ابتداء شان دار سمجھی جائے‘ ولی عہد خلافت کی اس خواہش کا پورا کرنا موسیٰ بن نصیر کے لئے بھی کچھ مضر نہ تھا‘ کیونکہ اگر موسیٰ کے انتظار اور تامل کرنے میں خلیفہ کی بیماری دور ہو جاتی تو حالت صحت و تندرستی میں ولید کی خدمت میں حاضر ہونا زیادہ اچھا تھا اور اگر خلیفہ فوت ہو جاتا تو سیلمان بن عبدالملک‘ موسیٰ بن نصیر سے خوش ہوتا کہ اس کے منشا کو موسیٰ نے پورا کیا اس طرح نئے خلیفہ سے عنایت و مہربانی کے سوا اور کسی چیز کی توقع نہ تھی‘ مگر موسیٰ بن نصیر نے ولی عہد خلافت کے پیغام پر مطلق توجہ نہ