تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اچھی طرح مسل دیا گیا تھا‘ لیکن پھر بھی امیر عبدالرحمن کو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ ۱۷۱ھ میں اس کے خادم بدر اور اس کے بعض رشتہ داروں اور ہم قوموں نے اس کے خلاف ایک سازش کی اور تخت اندلس پر خود قبضہ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ ممکن ہے کہ خلافت عباسیہ کی کسی خفیہ تحریک کا یہ اثر ہو یا اندلس کی روایات قدیمہ نے ان مخلصین کو غداری پر آمادہ کیا ہو‘ بہر حال امیر عبدالرحمن نے ان لوگوں کو یہی سزاد دینی مناسب سمجھی کہ ان کو اندلس سے خارج کر کے افریقہ کی طرف بھیج دیا۔ اس کے بعد عبدالرحمن تمام ان کاموں سے جو اس کے ہاتھ سے ہونے والے تھے فارغ ہو چکا تھا‘ ربیع الثانی ۱۷۲ھ میں تنیتیس (۳۳) سال چار مہینے حکومت کرنے کے بعد ۵۸ یا ۵۹ سال کی عمر میں فوت ہوا اور اس کی وصیت کے موافق اس کا بیٹا ہشام تخت نشین ہوا۔ عبدالرحمن کی زندگی پر تبصرہ عبدالرحمن بن امیہ کی زندگی کے حالات نہایت مختصر اور مجمل طور پر بیان ہو چکے ہیں‘ لیکن اس عجیب و غریب اور دنیا کی عظیم الشان شخص کی زندگی کا صحیح تصور کرنے کے لیے یہ حالات کافی نہیں ہیں۔ بیس سال کی عمر تک اس کا غالب شغل کتب بینی اور علمی مجالس کی شرکت تھی۔ فنون سپہ گری سے واقف ہونا ضروری و لازمی سمجھا جاتا تھا‘ بیس سال کی پر راحت زندگی کے بعد اس پر زندگی کا ایک ایسا دور آیا کہ وہ چوروں اور ڈاکوئوں کی طرح اپنے آپ کو چھپاتا پھرتا تھا اور روئے زمین کا ہر ایک انسان جو اس کو نظر آتا تھا‘ اپنا قاتل اور خون کا پیاسا جلاد ہی معلوم ہوتا تھا اس کے پاس کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تک نہ تھا‘ چند سال اس حالت میں گذارنے اور جنگلی صحرائوں اور ملکوں میں آوارہ رہنے کے بعد وہ ایک ملک کا مالک اور بادشاہ بن جاتا ہے‘ لیکن یہ بادشاہت کوئی ترلقمہ یا شربت کا گھونٹ نہ تھا‘ بلکہ مصیبتوں محنتوں کی ایک پوٹ تھی جو اس کے سر پر رکھ دی گئی تھی‘ اگر عبدالرحمن کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو شروع ہی میں ناکام ہو کر برباد ہو جاتا‘ مگر عبدالرحمن نے عجیب طاقتور دل اور عجیب پست نہ ہونے والی ہمت پائی تھی وہ اندلس میں ایک تنہا اجنبی شخص تھا اس کے ساتھ کسی قوم کو کوئی خصوصی محبت نہ ہو سکتی تھی‘ لیکن اس نے جس دانائی‘ مآل اندیشی‘ دور بینی اور ہوشیاری سے کام لیا ہے‘ یہ اسی کا حصہ تھا۔ ساتھ ہی وہ اعلیٰ درجہ کا سپہ سالار اور شمشیرزن سپاہی ثابت ہوا‘ حالاں کہ اندلس میں داخل ہونے سے پہلے اس کو سپہ سالاری اور تیغ زنی کا کوئی تجربہ نہ تھا اس نے کسی میدان اور کسی لڑائی میں کوئی بھی ایسی غلطی نہیں کی جس پر کوئی تجربہ کار سپہ سالار اعتراض یا نکتہ چینی کر سکے‘ جن لڑائیوں یا مہموں میں اس کے بڑے بڑے تجربہ کار سپہ سالار ناکام رہ جاتے تھے‘ ان مہموں کو عبدالرحمن جا کر فوراً سر کر لیتا تھا‘ کسی موقعہ پر اس کے ہاتھ پائوں نہیں پھولے اور وہ حواس باختہ نہیں ہوا‘ حالاں کہ بارہا اس پر ایسی مصیبتیں نازل ہوئیں اور اس کے خلاف ایسی بغاوتیں مسلسل ہوئیں کہ دوسرا شخص اس کی جگہ ہوتا‘ تو عقل و مذہب کی پابندی میں نہ رہ سکتا‘ یا تو احمقوں کی طرح اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا‘ یا بزدلوں کی طرح ذلیل ہو کر بھاگ جاتا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ عبدالرحمن نے اس بات کا موقعہ ہی نہیں دیا کہ اس کی ہمت کی انتہا اور اس کے استقلال کی آخری سرحد کا کسی کو اندازہ ہو سکے اس نے بڑی سے بڑی ہمت دکھائی‘ لیکن اس کے معتدل انداز اور متانت آمیز طرز عمل سے ہمیشہ یہی ظاہر ہوا کہ وہ