تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھائی قتلغ نے بھائی کے خلاف علم مخالفت بلند کیا۔ معرکۂ جنگ میں قتلغ کو شکست ہوئی اس نے فرار ہو کر خوارزم شاہ کے پاس پناہ لی۔ اور اس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آذر بائیجان پر حملہ کر کے فتح کر لے مگر قتلغ خوارزم شاہ کے ایک سردار کی تیغ خون آشام کا شکار ہوا۔ اور چند روز کے بعد عطا بیگ ابوبکر کا انتقال ہوا تو اس کا دوسرا بھائی عطا بیگ مظفر بھائی کا جانشین ہوا۔ اس نے آذر بائیجان کے علاوہ ملک عراق کے ایک حصہ پر قبضہ کیا۔ اور پندرہ سال حکومت کرتا رہا۔ آخر سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے آذر بائیجان پر حملہ کر کے اس کو فتح کر لیا۔ اور اس طرح سلطنت خوارزم شاہیہ اور آذربائیجان کی دولت ایلاکز یہ کا ساتھ ہی ساتھ خاتمہ ہوا۔ دولت ملاحدئہ الموت علاقہ قبستان میں الموت و قزوین وغیرہ کے قلعے حسن بن صباح نے اپنے قبضہ میں لے کر ایک سلطنت کی بنیاد دولت سلجوقیہ کے عین عالم شباب میں قائم کی تھی حسن بن صباح اور اس سلطنت ملاحدہ کا حال بالتفصیل پہلے کسی باب میں بیان ہو چکا ہے اس جگہ بعض اور ضروری باتیں جو پہلے بیان میں رہ گئی تھیں اضافہ کی جاتی ہیں تاکہ تاریخ اسلام کا یہ سلسلہ بیان تکمیل کو پہنچ جائے۔ حسن بن صباح کی نسبت اور تو بہت سی باتیں مئورخین نے بیان کی ہیں۔ لیکن اس کے قوی الجسم اور مضبوط ہونے کا حال اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ اس کے دو بیٹوں نے کسی کام میں اس کی نافرمانی کی تو حسن بن صباح نے ناراض ہو کر دونوں کے صرف ایک ایک طمانچہ مارا تو طمانچہ کی اس ضرب سے دونوں مر گئے۔ ایک مرتبہ حسن بن صباح کو سلجوقیوں کی حملہ آوری اور محاصرہ کے وقت اپنے بیوی بچوں کو ایک دوسرے قلعے میں احتیاطاً بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اس قلعہ کے حاکم کو تاکید کر دی کہ میری بیوی خود ہی سوت کات کر اپنے خورد و نوش کے لئے سامان فراہم کرے گی تم کو اس کی کوئی مہمان نوازی نہیں کرنی چاہیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن صباح نہ صرف خود ہی سادہ زندگی بسر کرتا تھا بلکہ وہ اپنے اہل و عیال کو بھی راحت طلبی سے دور و مہجور رکھنا چاہتا تھا۔ حسن بن صباح کی وفات کے بعد کیا بزرگ امید الموت میں تخت نشین ہوا سلطان محمد سلجوقی اور کیا بزرگ امید کے درمیان محمد سلجوقی کی وفات تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد سلجوقی کی وفات کے بعد کیا بزرگ امید نے سلجوقیوں کے کئی قلعوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا اور گیلان کو خوب لوٹا۔ کیا بزرگ امید کے بعد اس کا بیٹا محمد نامی تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد حکومت میں فدائیوں نے جابجا بادشاہوں اور بڑے آدمیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ جب قتل کی وارداتیں کثرت سے وقوع پذیر ہوئیں۔ تو ایران کے لوگوں نے سلطان سنجر سلجوقی کی خدمت میں فریاد کی اور علماء نے ان فدائیوں کے خلاف قتل کے فتوے دئیے۔ مگر سلطان سنجر نے ایلچی الموت میں بھیجے کہ وہ ان لوگوں کے اعمال و عقائد کی نسبت صحیح حالات معلوم کر کے آئیں۔ چنانچہ مجلس مناظرہ منعقد ہوئی اور ان ملاحدہ نے اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرنے کی خوب کوششیں کیں۔ آخر یہ افہام و تفہیم بلا نتیجہ رہی۔ اور سلطان سنجر نے ان ملاحدہ کے قتل عام کی نسبت حکم دینے میں تامل اور احتیاط ہی کو ضروری خیال کیا۔ تین سال کے بعد محمد بن کیا بزرگ امید فوت ہوا۔ اس کی جگہ حسن بن محمد تخت نشین