تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمرو بن لیث کے مقابلہ پر آمادہ کیا۔ عمرو بن لیث ستر ہزار سوار لے کر اسمٰعیل سامانی کے استیصال پر آمادہ ہوا۔ اور دریائے جیحون کو عبور کیا۔ اسمٰعیل سامانی صرف بیس ہزار سواروں کے ساتھ مقابلہ پر آیا عین معرکہ جنگ کے وقت عمرو بن لیث کا گھوڑا اپنے سوار کی منشاء کے خلاف اس کو اسمٰعیل سامانی کے لشکر میں لے گیا۔ اور وہاں وہ بڑی آسانی سے گرفتار کر لیا گیا۔ صید را چوں اجل آید سوئے صیاد رود اسمٰعیل سامانی نے عمرو کو گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا۔ اور اس طرح دولت صفاریہ کی عظمت و شوکت کا قریباً خاتمہ ہو گیا۔ یعقوب بن لیث اور عمرو بن لیث میں سب سے بڑا فرق یہ تھا۔ کہ یعقوب ایک صعوبت کش اور سوکھی روٹیاں چبا کر گذر کر لینے والا سپاہی تھا۔ اور عمرو بن لیث ایک شان و شوکت اور سامان عیش کے ساتھ بسر کرنے والا بادشاہ تھا۔ اس جگہ ایک لطیفہ کا نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جس روز عمرو بن لیث گرفتار ہوا ہے اس روز صبح کے وقت اس کے باورچی نے عرض کیا کہ باورچی خانہ کا سامان اٹھانے کے لیے تین سو اونٹ ناکافی ہیں۔ مجھ کو باربرداری کے کچھ اونٹ اور دیئے۔ جائیں۔ اسی شام کو جب کہ عمرو بن لیث گرفتار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے باورچی سے جو اس کے ساتھ قید خانہ میں موجود تھا۔ بھوک کی شکایت کی باورچی نے گھوڑوں کا مہیلہ پکانے کی ایک ہانڈی میں جو اتفاقاً وہاں موجود تھی۔ تھوڑا سا دلیا پانی ڈال کر پکنے کے لیے چولھے پر چڑھا دیا۔ اس کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ عمرو بن لیث دلیے کے پکنے کا انتظار نہایت بے صبری کے ساتھ کر رہا تھا۔ باورچی نے ہانڈی چولھے سے اتار کر رکھی اور کسی ضرورت سے دوسری طرف متوجہ ہوا کہ اتنے میں ایک کتا آیا۔ ہانڈی کا کنارہ منہ میں پکڑ کر اور اٹھا کر چل دیا۔ عمرو بن لیث نے جب کتے کو ہانڈی لے جاتے ہوئے دیکھا تو اپنے باورچی کو آواز دے کر کہا کہ صبح تو شکایت کر رہا تھا کہ باورچی خانہ کا سامان اٹھا کر لے چلنے کے لیے تین سو اونٹ ناکافی ہیں۔ اب دیکھ لے کہ ایک کتا میرا سارا باورچی خانہ اٹھائے ہوئے لے جا رہا ہے۔ عمرو بن لیث کے بعد اس کی اولاد نے چند سال تک علاقہ سیستان کے محدود رقبہ میں اپنی اپنی برائے نام حکومت قائم رکھی۔ یعقوب بن لیث صفار کا نواسا جس کا نام خلف تھا۔ محمود غزنوی کے زمانہ تک سیستان میں برسر حکومت رہا۔ خلف کے بیٹے نے باپ کے خلاف مخالفت کا علم بلند کیا۔ خلف نے اپنے آپ کو بیٹے کے مقابلہ میں کمزور دیکھ کر اس کو دھوکے سے قتل کیا۔ باشندگان سیستان نے سلطان محمود غزنوی کی خدمت میں خلف کے خلاف شکایات کی غرصیاں بھیجیں۔ اور لکھا کہ آپ ہم کو خلف کے مظالم سے نجات دلائیے۔ سلطان محمود غزنوی نے چڑھائی کی خلف نے مقابلہ میں اپنے آپ کو مغلوب اور اپنے قلعہ کو مفتوح دیکھ کر سلطان محمود کی خدمت میں حاضر ہو کر رکاب کو بوسہ دیا اور اپنی داڑھی سلطان کے پائوں سے مل کر کہا کہ اے سلطان مجھ کو معاف کر دے۔ محمود غزنوی کو خلف کی زبان سے اپنی نسبت لفظ ’’سلطان‘‘ پسند آیا اور آئندہ اس لفظ ’’سلطان‘‘ کو اپنا لقب قرار دیا۔ خلف کو اور کوئی سزا نہیں دی۔ اسی قدر کافی سمجھا کہ اس کو اپنے ہمراہ غزنین لے گیا۔ جہاں چار سال رہ کر خلف نے وفات پائی۔ اس طرح دولت صفاریہ کا خاتمہ ہوا۔ دولت سامانیہ