تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور عورتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جس طرح استعمال کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ شہر ٹورس پر لڑائی پائی ٹیرس پر قبضہ کر کے مسلمان شہر ٹورس کی طرف بڑھے جو ملک فرانس کے مرکز میں واقع ہے‘ شہر ٹورس کے قریب ایک میدان میں عیسائیوں کی مجموعی تعداد اور پورے لشکر نے اسلامی فوج کا مقابلہ کیا‘ اس میدان میں پہنچ کر دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل سات روز تک خیمہ زن رہیں‘ اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی‘ مسلمانوں کی فوج بالکل غیر اور اجنبی ملک میں تھی‘ عیسائی اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جمع ہوئے تھے‘ چالس مارٹل اور ڈیوک آف ایکیوٹین جیسے نامور اور تجربہ کار سپہ سالاروں کے علاوہ اسی حیثیت کے اور بھی کئی سردار عیسائیوں کی افواج کے مختلف حصوں کی سپہ سالاری کر رہے تھے‘ ہر طرف سے عیسائیوں کی فوجیں امڈی چلی آ رہی تھیں اور دم بہ دم ان کی جمعیت بڑھ رہی تھی‘ پادریوں کی پرجوش مذہبی تقریروں سے عیسائیوں کا جوش بھی ترقی کر رہا تھا‘ اس مرتبہ مسلمانوں کی فوج تعداد میں پہلے کی نسبت شاید زیادہ ہو گی‘ چونکہ عیسائی لشکر بھی بہت زیادہ تھا اور تمام ملک فرانس مدافعت پر مستعد ہو گیا تھا‘ لہٰذا مسلمانوں کی نسبت اس مرتبہ بھی وہی تھی‘ جو پہلی لڑائیوں میں ہوتی تھی‘ یعنی مسلمان عیسائیوں سے دسواں حصہ بھی نہ تھے‘ اس مرتبہ مسلمان مال غنیمت کے سبب پہلے سے زیادہ بوجھل تھے‘ اپنے ملک سے بہت دور نکل آئے تھے اور چاروں طرف دشمنوں سے گھرے ہوئے تھے‘ آخر آٹھویں روز مسلمانوں کے امیر عبدالرحمن غافقی نے زیادہ انتظار کو مناسب نہ سمجھ کر اپنی فوج کو حملہ کیا حکم دیا‘ لڑائی شروع ہوئی اور شام تک میدان کارزار گرم رہا‘ رات کی تاریکی نے حائل ہو کر فیصلہ جنگ کو کل پر ملتوی کر دیا‘ رات کو مسلمان اپنی قلت تعداد کے سبب اور عیسائی مسلمانوں کی شجاعت و بہادری کا تجربہ کر کے بہت متفکر رہے‘ اگلے دن صبح سے ہنگامہ داروگیر پھر گرم ہوا۔ اس روز ڈیوک آف ایکیوٹین نے جو اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی لڑائی کا تجربہ کر چکا تھا‘ یہ چالاکی کی کہ اپنی فوج کو لے کر رات ہی سے ایک کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھ رہا‘ ٹھیک اس وقت جب کہ عیسائی مسلمانوں کے مقابلے میں میدان چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے تھے‘ ڈیوک آف ایکیوٹین نے عقب سے آ کر اسلامی لشکر پر حملہ کیا‘ اس غیر متوقع حملہ کا اثر یہ ہوا کہ اگلی صفیں پیچھے سے آنے والے دشمن کی طرف متوجہ ہو گئیں اور عیسائیوں کا لشکر عظیم جو فرار پر آمادہ تھا یک لخت اپنے آپ کو سنبھال کر حملہ آور ہوا مٹھی بھر مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ مجتمع نہ رہ سکا۔ امیر عبدالرحمن کی شہادت اس داروگیر میں امیر عبدالرحمن غافقی نے اپنے پیشرئووں کی سنت پر عمل کیا اور شمشیر بہ کف دشمنوں میں گھس کر سینکڑوں کو تہ تیغ کیا اور جسم پر سینکڑوں زخم کھا کر جام شہادت نوش کیا اس روز بھی صبح سے شام تک ہنگامہ کار زار گرم رہا تھا اور عبدالرحمن غافقی کی شہادت کے بعد ہی رات کی تاریکی نے لڑائی کو روک دیا تھا‘ بظاہر آج بھی عیسائی فتح مند نہ تھے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے مسلمانوں کو نرغہ میں لے لیا تھا‘ مگر شام تک شمشیر زنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود ہی سمٹ کر پھر ایک طرف ہو گئے تھے اور مسلمانوں کو ان کی جگہ سے نہ ہٹا سکے تھے‘ مگر خاتمہ جنگ مسلمانوں کے لیے سخت اندوہناک اور عیسائیوں کے لیے بے حد مسرت انگیز تھا