تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سرحدی عیسائی سلاطین کی بغاوتیں خلیفہ حکم کو بچپن سے کتابیں پڑھنے اور علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ گزر چکا تھا۔ بڑے بڑے علماء و فضلاء اس کے سامنے کوئی علمی تقریر کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ دنیا کے کسی ملک اور کسی تخت سلطنت پر غالباً ایسا ذی علم اور متبحر بادشاہ نہیں بیٹھا۔ حکم ثانی کے علم و فضل اور مطالعہ کتب کی حکایتیں چونکہ پہلے ہی سے دور دور تک مشہور تھیں۔ اس لیے اس کے تخت نشین ہونے کی خبر سن کر عیسائی سرحدی سلاطین کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ اپنے باپ کی طرح ایک بہادر صعوبت کش سپہ سالار ثابت نہ ہو سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے سرکشی اور طغیان کا اظہار کیا۔ بادشاہ قسطلہ نے اسلامی سرحدی شہروں پر دست درازی و حملہ آوری شروع کر دی۔ خلیفہ حکم نے یہ حال سن کر اپنی تخت نشینی کے پہلے ہی سال میں بذات خود قسطلہ کی جانب فوج کی اور عیسائیوں کو شکست فاش دے کر جلیقیہ کے ملک میں دور تک داخل ہو کر اور اقرار اطاعت لے کر واپس آیا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ جلیقیہ کے سرکش عیسائی اس تنبیہ کو کافی نہ سمجھ کر شورش و فساد پر پھر آمادہ ہیں۔ چنانچہ خلیفہ حکم نے اپنے آزاد کردہ غلام غالب کو سپہ سالار افواج سرحد بنا کر روانہ کیا۔ اور جلیقیہ والوں کی سرکوبی کے لیے تاکید کر دی۔ غالب نے پہنچ کر عیسائی افواج کو اپنی فوج سے کئی گنا زیادہ دیکھا مگر اس نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے حملہ کیا۔ سب کو شکست فاش دے کر بھگا دیا۔ اور حکومت قسطلہ کے ایک بڑے حصے کو تاراج اور قلعوں کو منہدم کر کے قرطبہ کی جانب واپس ہوا۔ ابھی چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ شانجہ کے باغی ہونے کی خبر پہنچی اس کی مدد کے لیے لیون نوار‘ قسطلہ وغیرہ کئی عیسائی حکومتوں کی فوجیں مجتمع ہو گئیں۔ خلیفہ حکم نے یعلیٰ بن محمد حاکم سرقطہ کو لکھا کہ تم ان باغیوں کی سرکوبی کا کام انجام دو۔ چنانچہ یعلیٰ بن محمد نے تنہا ان افواج گراں کا مقابلہ بڑی بہادری اور قابلیت کے ساتھ کیا۔ اور سب کو شکست دے کر خلیفہ حکم کی خدمت میں مع مال غنیمت حاضر ہوا۔ یعلیٰ بن محمد ابھی قرطبہ ہی میں فروکش تھا کہ حاکم برشلونہ کے باغی ہونے کی خبر پہنچی۔ اور ساتھ ہی معلوم ہوا کہ حاکم قسطلہ بھی پھر سامان بغاوت فراہم کر رہا ہے۔ خلیفہ حکم نے یعلیٰ بن محمد کو برشلونہ کی جانب روانہ کیا اور غالب و ہذیل بن ہاشم کو حاکم قسطلہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا۔ دونوں فوجیں برشلونہ و قسطلہ کی جانب روانہ ہوئیں اور دونوں جگہ عیسائیوں کو سخت نقصان اٹھا کر اقرار اطاعت پر مجبور ہونا پڑا۔ خلیفہ حکم کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں جب عیسائیوں کو پیہم ناکامیاں ہوئیں تو ان کی ہمتیں پست ہو گئیں اور ان کو یقین ہو گیا کہ خلیفہ حکم ثانی اپنے باپ سے کسی طرح عزم و قوت میں کم نہیں ہے۔ ۳۵۴ھ میں ایک مرتبہ پھر سرحدی عیسائیوں میں کشمکش اور سرکشی کے حالات نمایاں ہوئے۔ مگر یعلیٰ بن محمد اور قاسم بن مطرف نے سب کو سیدھا کر دیا۔ اسی سال نارمن لوگوں نے جزیرہ نمائے اندلس کے مغربی ساحل پر حملہ کر کے شہر لشونہ (لسبن) کے نواح تاخت و تاراج شروع کی۔ خلیفہ کو جب اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے اپنے امیر البحر عبدالرحمن بن رباحس کو حکم دیا کہ ان قزاقوں کو بھاگنے نہ دے۔ اور خود فوج لے کر قرطبہ سے لسبن کی جانب روانہ ہوا۔ مگر خلیفہ اور امیر البحر عبدالرحمن کے پہنچنے سے پہلے ہی ان قزاقوں کو خشکی اور سمندر سے وہاں کے