تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جب عبدالمومن کے چیرہ دست ہونے اور مرابطین کے مغلوب و مجبور ہونے کی خبریں پہنچیں تو عیسائیوں نے پھر بڑے زور شور کے ساتھ اسلامی مقبوضات پر حملے شروع کر دئیے۔ یحییٰ بن علی وائسرائے اندلس نے بڑی ہمت و استقلال کے ساتھ عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور اسلامی شہروں کو ان کی دست برد سے بچایا۔ ۵۲۸ھ میں ابن ردمیر نے بعض شہروں کو فتح کیا۔ یحییٰ بن علی نے اس کے مقابلہ پر پہنچ کر ایک سخت لڑائی کے بعد ابن ردمیر کو قتل کیا۔ اور اس طرح سلطنت اسلامیہ کا رعب پھر عیسائیوں کے دلوں میں قائم کر دیا۔ مرابطین کی حکومت کے خاتمہ کا اثر اندلس پر مگر دربار مرابطین کی درہمی و برہمی کا حال سن کر ملک اندلس کے والیوں نے جابجا اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کیا۔ جس طرح خلافت بنو امیہ کی بربادی کے بعد ملک اندلس میں طوائف الملوکی ہو گئی تھی۔ اسی طرح اب بھی جو شخص جس شہر یا قلعہ کا حاکم تھا وہ خود مختار فرماں روا بن بیٹھا۔ بلکہ پہلی طوائف الملوکی میں خود مختار رئیسوں کی تعداد کم اور ان کے مقبوضہ علاقے وسیع تھے۔ اس مرتبہ اسلامی اندلس بہت ہی چھوٹے چھوٹے کثیر التعداد ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ شہر شہر اور قصبے قصبے میں الگ الگ سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ اور سب نے شاہانہ خطاب و لقب اپنے لیے تجویز کر لیے۔ یہاں تک بھی کچھ زیادہ افسوس کی بات نہ تھی۔ بشر طیکہ یہ سب ایک دوسرے کے دشمن نہ بنتے۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ تھی۔ کہ آپس میں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے پر آمادہ ہو گئے اور تمام اسلامی اندلس لڑائیوں اور ہنگامہ آرائیوں کے شور و غل سے گونج اٹھا۔ ایسی حالت میں عیسائیوں کے لیے تمام جزیرہ نما پر قابض ہو جانے کا زریں موقع مل چکا تھا۔ خود یحییٰ بن علی وائسرائے اندلس بھی قرطبہ پر قبضہ کر کے انہیں طوائف الملوک کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔ اور دوسروں سے زیادہ طاقتور نہ تھا۔ اسی حالت میں عبدالمومن سردار موحدین نے سلطنت مرابطین کو مراکش سے مٹا کر بلا توقف اپنا ایک سپہ سالار اندلس کی طرف روانہ کیا۔ اور ۵۲۴ھ میں اندلس پر قابض ہو گیا۔ اور چند روزہ طوائف الملوکی کے بعد اندلس اسی طرح موحدین کے حدود سلطنت میں شامل ہو گیا۔ جس طرح وہ مرابطین کی سلطنت کا ایک جزو تھا۔ مرابطین کے عہد حکومت میں فقہا کا خوب زور شور تھا۔ یوسف اور علی دونوں بادشاہ مالکی مذہب کے پیرو اور فقہاء کے بے حد قدر دان تھے بڑے عابد زاہد اور علم دوست فرمانروا تھے۔ مگر وہ اس معاملے میں اس قدر بڑھ گئے تھے کہ فلسفہ اور علم کلام کے جانی دشمن مشہور تھے۔ قاضی عیاض نے شکایت کر کے سیدنا امام غزالی کی تصانیف کے خلاف دربار شاہی سے احکام جاری کرا دئیے تھے۔ جن کی رو سے ہر ایک وہ شخص جس کے پاس سے امام غزالی۱؎ کی کوئی مصنفہ کتاب بر آمد ہو لائق کشتنی و گردن زدنی قرار دیا جاتا تھا۔ ---