تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق سب سے زیادہ طاقتور اور دانا سمجھا جاتا تھا۔ سب نے باتو خان کی طرف رجوع کیا کہ اب بتائیے کس کو تخت سلطنت پر بٹھایا جائے۔ باتو خان نے فیصلہ کیا کہ کیوک خان کے بعد اب منکو خان سے زیادہ اور کوئی مستحق سلطنت نہیں ہے۔ اکثر سرداروں نے اس کو پسند کیا۔ لیکن بعض نے اس کی مخالفت کی مگر معمولی زدو خورد کے بعد منکو خان کی حکومت و سلطنت قائم ہو گئی۔ منکو خان منکو خان نے اپنے بھائی قویلا خان کوختا کی حکومت سپرد کی اور اپنے دوسرے بھائی ہلاکو خان کو ایک عظیم الشان فوج دے کر ایران کی طرف روانہ کیا۔ منکو خان کی رسم تخت نشینی ۶۴۸ھ میں ادا ہوئی تھی۔ منکو خان مسلمانوں کے ساتھ بہت رعایت کرتا اور ان کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا تھا۔ منکو خان کی وفات سات برس سلطنت کر کے ۶۵۵ھ میں فوت ہوا۔ اپنی سلطنت کے آخری سال میں منکو خان نے چین کے بادشاہ کو لکھا کہ تم اطاعت و فرما نبرداری اختیار کرو۔ اس نے انکار کیا منکو خان نے چین کے ملک پر چڑھائی کی۔ قویلہ خان اسی سفر میں بمقام چنکد خان کا انتقال ہوا اس کا بھائی قویلہ خان جو اس سفر میں بھائی کے ساتھ تھا۔ امرائے لشکر کے اتفاق رائے سے بمقام چنکد تخت نشین کیا گیا۔ لیکن اس خبر کے پہنچنے پر ارتق بوقانے قراقورم میں تاج شاہی اپنے سر پر رکھا( قویلا خان جب قراقورم کی طرف متوجہ ہوا تو ادھر قراقورم سے سے ارتق بوقا بھی فوج لے کر مقابلہ کے لئے نکلا۔ مقام کلوران میں دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوا۔ سخت لڑائی کے بعد ارتق بوقا کو شکست فاش حاصل ہوئی مگر وہ میدان جنگ سے اپنی جان بچا کر لے گیا۔ اور قویلہ خان نے قراقورم میں داخل ہو کر تخت سلطنت پر جلوس کیا۔ ارتق بوقانے ختا کی طرف جا کر فوج جمع کی اور پھر اپنی حالت درست کر کے آیا غرض چار سال تک ارتق بوقا اور قویلہ خان کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ارتق بوقا گرفتار ہو کر قید ہوا اور اسی قید میں مر گیا۔ قویلہ خان نے ۶۵۵ھ میں تخت نشین ہوتے ہی ہلاکو خان کے پاس حکم بھیج دیا تھا کہ دریائے جیحوں سے ملک شام تک کے علاقے کی حفاظت و نگرانی تمھارے ذمہ ہے اور تم کو اس علاقے کی حکومت سپرد کی جاتی ہے۔ ارتق بوقا اور قویلہ خان کی جنگ و پیکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی مرکزی حکومت اور دربار قراقورم کا رعب کم ہو گیا۔ اور جہاں جہاں جو سردار مامور تھا وہ اپنے آپ کو خود مختار اور آزاد بادشاہ سمجھنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ خاندان چنگیزی کے کئی شہزادے اور سربر آور دہ لوگ علانیہ اسلام کو قبول کر چکے تھے۔ اور اسلام نے مغلوں کے اندر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ قویلا خان نے ارتق بوقا کے فتنہ سے فارغ ہو کر ملک چین کی طرف فوج کشی کی۔ اور چند سال کی لڑائیوں کے بعد تمام ملک چین کو فتح کر کے بجائے قراقورم کے ملک چین میں ایک نیا شہر خان بالیغ کے نام سے آباد کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ اور سیام وبرہما۱؎ و جاپان وغیرہ ملکوں سے خراج وصول کیا۔ قویلا خان نے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے چار وزیر مقرر کئے۔ جن میں ایک مسلمان یعنی امیر احمد بنا کتی بھی تھا۔ قویلا خان کی حکومت اور بادشاہی کو تمام مغل