تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خم کرنا پڑا‘ جولین کی ایک بیٹی فلور نڈا نامی تھی جو بادشاہ وٹیزا کی نواسی یعنی قدیمی شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی گاتھ حکومت کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ امیروں‘ گورنروں‘ سپہ سالاروں اور بلند مرتبہ لوگوں کے چھوٹے لڑکے بادشاہ کے پاس بطور پیش خدمت رہتے‘ آداب دربار سیکھتے اور شائستگی حاصل کرتے تھے‘ بادشاہ بھی مثل اپنی اولاد کے ان کے رنج و راحت کا خیال رکھتا اور جب وہ جوان ہو جاتے تو اپنے والدین کے پاس واپس جانے کی اجازت پاتے تھے‘ اسی طرح امراء کی لڑکیاں بادشاہ بیگم کے پاس محل میں بھیج دی جاتی تھیں اور وہاں محلات شاہی میں پرورش پاکر جوان ہوتی تھی‘ بادشاہ اور بادشاہ بیگم ان لڑکیوں کو مثل اپنی بیٹیوں کے سمجھتے تھے اسی رسم قدیم کے موافق کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا بھی شاہی محلات میں موجود تھی‘ یہ لڑکی جوان ہو گئی تھی اور اس کو اب اس کے والدین کے پاس ہونا چاہیئے تھا‘ مگر اندلس کے بادشاہ لرزیق نے باوجود اس کے کہ وہ بوڑھا شخص تھا‘ اس لڑکی کی جبریہ طور پر عصمت دری کی لڑکی نے بمشکل اپنی بے عزتی کے حال سے اپنے باپ کو اطلاع دی‘ اس خبر کو سن کر جولین کے دل میں طیش و غضب کی آگ مشتعل ہوئی اور گاتھ قوم کے جس شخص کو بھی اس کا حال معلوم ہوا اس نے اپنی قوم اور قدیمی شاہی خاندان کی اس بے حرمتی کو گراں محسوس کیا‘ کونٹ جولین نے اپنی ناراضگی کو پوشیدہ رکھا اور فوراً سبطہ سے روانہ ہو کر طیطلہ (ٹالیڈو) میں پہنچا‘ شاہی دربار میں حاضر ہو کر اپنی بیوی یعنی فلورنڈا کی ماں کے بیمار ہونے اور مرنے سے پہلے بیٹی کے دیکھنے کی خواہش ظاہر کرنے کا حال بیان کر کے فلورنڈا کے لے جانے کی اجازت چاہی‘ یہ ایک ایسا بہانہ تھا کہ لرزیق کسی طرح اس کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا‘ چنانچہ جولین اپنی بیٹی کو لے کر سبطہ میں واپس آ گیا‘ قدیمی شاہی خاندان کے حامیوں میں سے اشبیلیہ کا اسقف بھی جولین کے پاس آیا اور لرزیق کی حکومت کے درہم برہم کرنے کی تدابیر سوچنے میں یہ دونوں مصروف ہوئے۔ موسیٰ بن نصیر اس زمانہ میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی جانب سے شہر قیروان میں موسیٰ بن نصیر خلیفہ کے مقبوضات غربی کا وائسرائے تھا‘ موسیٰ بن نصیر کی طرف سے طارق بن زیاد‘ اس کا ایک بربری النسل غلام شہر طنجہ کی حکومت پر مامور اور ملک مراکش کی افواج اسلامیہ کا سپہ سالار تھا‘ طارق اگرچہ جولین سے قریب تھا لیکن جولین نے بجائے طارق سے گفتگو کرنے کے موسیٰ بن نصیر سے اپنا مقصود ظاہر کرنا مناسب سمجھا‘ وہ اشبیلیہ کے اسقف اعظم اور چند عیسائی سرداروں کو ہمراہ لے کر قیروان پہنچا‘ اور موسیٰ بن نصیر کی خدمت میں اپنے آنے کی اطلاع پہنچائی۔ موسیٰ بن نصیر اس عیسائی وفد سے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ ملا۔ جولین اور اس کے ہمراہیوں نے عرض کیا کہ آپ اندلس پر فوج کشی کریں‘ فتح و نصرت یقینا آپ کے شامل حال ہو گی‘ موسیٰ یہ سن کر متامل ہوا اور کوئی تسکین بخش جواب نہ دے سکا۔ تب جولین اور اسقف اشبیلیہ نے کہا کہ آج کل اندلس میں ایک شخص غاصبانہ طور پر مسلط ہے‘ موجودہ حکومت اندلس کی رعایا کے لیے ایک قہرالٰہی ہے۔ بنی نوع انسان کے حقوق جو محض انسان ہونے کی وجہ سے آپ پر عائد ہوتے ہیں‘ آپ ان کو ادا کریں اور اہل اندلس کو اس جہنم سے جس میں آج کل وہ مبتلا ہیں نجات دلائیں‘ بجز آپ کے اور کوئی طاقت دنیا میں ایسی نہیں جس کے پاس ہم اپنی فریاد لے کر جائیں اور اس