تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امیر سمح بن مالک خولانی‘ اگرچہ ایک فوجی آدمی اور طارق بن زیاد کے ہمراہیوں میں سے تھا‘ لیکن اس نے اندلس کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی سب سے پہلے عدل و داد اور رعایا کی خوش حالی کے سامانوں کی فراہمی شروع کی‘ امیر سمح کی حکومت سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کا عکس تھا۔ اندلس کی مردم شماری سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے اس امیر نے ملک اندلس کی مردم شماری کرائی جس سے ہر قوم‘ ہر قبیلے اور ہر ایک مذہب کے لوگوں کی الگ الگ تعداد معلوم ہو گئی‘ بربری لوگوں کو امیر سمح نے غیرآباد علاقوں میں آباد کر کے زراعت و حرفت کی طرف رغبت دلائی‘ جس میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ملک اندلس کا ایک جغرافیہ تیار کرایا‘ جس میں ہر شہر و قصبے کی آبادی‘ اس کا محل وقوع اور ضروری حالات درج تھے‘ ایک شہر سے دوسرے شہر کا فاصلہ‘ دریا‘ پہاڑ وغیرہ سب کے حالات درج تھے‘ ملک کی تجارتی اشیاء کی فہرست‘ بنا در کے حالات معدنی اشیاء کی کیفیت‘ غرض نہایت مکمل و مشرح جغرافیہ ملک اندلس کا تیار کر کے خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا‘ ایک نقشہ بھی ملک اندلس کا تیار کرا کر بھیجا‘ تجارت وزراعت میں سہولت پیدا کی‘ جزیہ و عشروخمس و خراج وغیرہ کے پختہ قانون رائج کئے‘ ۱؎پھر شہر سرقسطہ میں ۱؎ اسلامی حکومت یعنی خلافت میں حقوق شہریت کے بدلہ میں غیر مسلموں سے کچھ سالانہ محصول لیا جاتا تھا جو جزیہ کہلاتا تھا۔ عشر مسلمان کاشت کاروں اور زمینداروں پر فصل (غلہ/پھل) کی صورت میں مالی فریضہ ہے جو وہ ہر فصل کا دسواں حصہ کی صورت میں ادا کریں گے …خراج‘ مسلم حکمران یعنی خلفاء ان غیر مسلم حکمرانوں سے ایک متعینہ سالانہ محصول کے طور پر وصول کرتے تھے جن کی ریاست کو فتح کر کے وہ ریاست ان کو واپس کر دیتے تھے … جنگ میں شکست کھا کر بھاگتے ہوئے غیر مسلم جو مال غنیمت یا سامان چھوڑ جاتے تھے‘ اس کا پانچواں حصہ غربأ و مساکین‘ اسلامی حکومت بیوگان وغیرہ کے لیے مختص کر دیتی تھی۔ یہ پانچواں حصہ خمس کہلاتا ہے۔ ایک مسجد اور قرطبہ میں دریائے وادی الکبیر کا مشہور و معروف پل تیار کرایا‘ اس کے علاوہ جابجا اور بھی مسجدیں اور پل تیار کرائے‘ غرض چند روز میں اس امیر نے اندلس کو امن وامان اور عدل و انصاف سے پر کر دیا‘ امیر سمح کو امرائے اندلس میں وہی مرتبہ اور وہی نسبت حاصل ہے جو تمام خلفائے بنو امیہ میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز کو حاصل تھی۔ جنوبی فرانس میں پیش قدمی اس امیر کے ابتدائی عہد حکومت کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں‘ آتا تھا کہ وہ کوئی جنگ جو اور شمشیر زن سپہ سالار بھی بن سکتا ہے‘ لیکن ملک اندلس کے اندرونی انتظام و استحکام سے فارغ ہو کر خلیفہ کی اجازت کے موافق امیر سمح نے فوج لے کر جبل البرتات کی طرف توجہ کی‘ اس پہاڑ کی گھاٹیوں کو طے کر کے وہ اس ملک میں داخل ہوا‘ جو آج کل جنوبی فرانس کہلاتا ہے‘ فرانس کے اس جنوبی حصہ میں دو زبردست حکومتیں قائم تھیں‘ ایک سلطنت یا ریاست وہ تھی جو اندلس کے گاتھ لوگوں نے فرار ہو کر یہاں آکر قائم کر لی تھی‘ اس ریاست کا دارالحکومت شہر ناربون تھا اور چونکہ تمام ملک اندلس کے خزائن جس قدر گاتھ لوگ لا سکتے تھے‘ یہیں لے آئے تھے اور تمام وہ لوگ بھی یہیں آ کر جمع ہو گئے تھے جو مسلمانوں کے دشمن تھے۔ لہٰذا یہ حکومت خوب طاقتور اور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی‘ دوسری