تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان سوڈانی غلاموں کی تعداد کو جو بطور سوار بھرتی کیے جاتے تھے۔ تیس ہزار تک پہنچا دیا۔ ۲۸۱ھ میں ابراہیم قیروان سے شہر تونس میں چلا آیا۔ اور وہیں محل سرائے بنوا کر اقامت اختیار کی۔ ۲۸۳ھ میں فوج لے کر مصر کی جانب ابن طولون سے جنگ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اثناء راہ میں ایک بغاوت کا حال سن کر اس طرف متوجہ ہو گیا اور اس بغاوت کو فرو کیا۔ ۲۸۷ھ میں جزیزہ صقلیہ سے خبر آئی کہ اہل پلرمو نے بغاوت اختیار کی ہے۔ ابراہیم نے اپنے بیٹے ابوالعباس عبداللہ کو ایک سو ساٹھ کشتیوں کا بیڑہ دے کر صقلیہ کی جانب روانہ کیا۔ ابوالعباس عبداللہ نے صقلیہ پہنچ کر عیسائی باغیوں کو پہیم شکستیں دے کر تمام جزیرہ میں امن و امان قائم کر دیا۔ پھر فوجیں آراستہ کر کے جزیرہ صقلیہ سے کشتیوں میں سوار ہو کر ساحل فرانس پر حملہ آور ہوا۔ اور ڈیرھ برس کے بعد سالماً غانماً واپس آیا۔ اس کے آتے ہی ابراہیم خود جزیرہ صقلیہ میں گیا۔ اور وہاں سے ساحل فرانس پرحملہ آور ہوا۔ فرانسیسی اس سے بہت خوف کھاتے تھے۔ اس نے وہاں بعض مقامات کا محاصرہ کر رکھا تھا کہ اسی حالت میں آخر ماہ ذی الحجہ ۲۸۹ھ میں فوت ہوا۔ اس کی لاش پلرمو میں لا کر دفن کی گئی۔ اسی ابراہیم کے عہد حکومت میں ابوعبداللہ حسین بن محمد شیعی نے مراکش و افریقہ کی درمیانی حد پر کوہ اطلس کے جنوب شہر کتامہ میں ظاہر ہو کر بربری قبائل کو محبت اہل بیت کی ترغیب و تلقین شروع کر کے بہت جلد کافی طاقت حاصل کر لی۔ اور کتامہ پر قابض ہو کر حدود سلطنت اغلبیہ کو دبانا شروع کیا تھا کہ سلطان ابراہیم اغلبی فوت ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابوالعباس عبداللہ بن ابراہیم تخت نشین ہوا۔ ابوالعباس ابوالعباس نے تخت نشین ہو کر تونس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اپنے بیٹے ابوخول کو فوج دے کر ابوعبداللہ شیعی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ابو خول نے مقام تاوزرت میں ابوعبداللہ شیعی کو شکست فاش دے کر بھگا دیا اور تاوزرت میں ابوعبداللہ شیعی کے معتقدین کا قتل عام کیا۔ شیعی نے پھر فوج جمع کر کے ابو خول پر حملہ کیا۔ ایک شبانہ روز کی جنگ عظیم کے بعد ابوخول کو شکست ہوئی وہ تونس واپس آیا۔ یہاں سے پھر فوج مرتب کر کے ابوعبداللہ شیعی کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ ابوعبداللہ شیعی نے دھوکہ دے کر اس کی فوج پر حملہ کیا۔ اس غیر مترقبہ حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوخول کی فوج شکست کھا کر بھاگی اور ابوخول نے مقام سطیف میں قیام کر کے پھر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا اور مستعد ہو کر ابوعبداللہ شیعی کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ ادھر ابوخول کے دوسرے بھائی زیادۃ اللہ بن ابوالعباس نے اپنے باپ کے بعض خدام کو شریک سازش کر کے ابوالعباس کا کام تمام کرا دیا۔ اور خود شعبان ۲۹۰ھ میں تخت نشین ہوا یہ خبر جب ابوخول کو پہنچی تو وہ تونس کی طرف واپس آیا اور آتے ہی گرفتار ہو کر قتل ہوا علاوہ اس کے اور بھی اپنے بھائیوں اور چچائوں کو زیادۃ اللہ نے قتل کرایا۔ زیادۃ اللہ کی کنیت ابومضر تھی۔ ابومضر زیادۃ اللہ ابومضر زیادۃ اللہ کی تخت نشینی کے بعد ابوعبداللہ شیعی نے بڑھ کر شہر سطیف پر قبضہ کر لیا۔ اور اس کی طاقت میں خوب اضافہ ہو گیا۔ ابومضر عیش پرست اور پست ہمت شخص تھا۔ اس نے تونس کو چھوڑ کر مقام رقادہ میں سکونت اختیار کی اور اپنے