تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو جبل البرتات سے اس کے جنوبی و مغربی میدانوں تک وسیع ہو چکی تھی۔ ان کے لیے ناقابل التفات تھی۔ ان ریاستوں کو نہ انھوں نے مٹانا چاہا‘ نہ ان کے رقبہ کو کم کرنا ضروری سمجھا۔ وہ صرف اسی بات کو کافی سمجھتے تھے کہ یہ عیسائی ریاستیں ہماری فرماں برداری کا اقرار کرتی رہیں اور وہاں کی عیسائی آبادی پر خود ہی حکومت کریں۔ فرانس کے ملک پروہ اس لیے حملہ آور ہوتے تھے کہ اگر فرانس کی سلطنت کو مٹا دیا گیا تو خطرہ کا وجود باقی نہ رہے گا اور یہ پہاڑی عیسائی ریاستیں شاہ فرانس سے مل کر اور اس کی سازش میں شریک ہو کر ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موقعہ نہ پاسکیں گی۔ لیکن سلطان حکم ان دونوں سرحدی ریاستوں کو بالکل مٹا کر جبل البرتات پر اپنی زبردست فوجی چوکیاں قائم کر دیتا تو آئندہ کے لیے ملک اندلس خطرات سے محفوظ رہ سکتا اور ممکن تھا کہ کسی وقت ملک فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک بھی مستقل طور پر مسلمان فتح کر لیتے۔ ان پہاڑی سرحدی ریاستوں نے اندلس کی اسلامی سلطنت کو جو جو نقصانات پہنچائے اس کا تفصیلی تذکرہ آئندہ آنے والا ہے۔ سلطان حکم ہی کے عہد حکومت میں السیٹریاس کے ایک پادری نے ریاست السیٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کی سرحد کے ایک جنگل میں بتایا کہ یہاں سینٹ جیمس رسول کی قبر ہے اور مجھ کو خواب میں فرشتے نے اس قبر کا پتہ بتایا ہے۔ چنانچہ وہاں حاکم السیٹریاس نے ایک گرجا تعمیر کرا دیا گرجا نہ صرف السیٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کے عیسائیوں کی زیارت گاہ بنا۔ بلکہ یورپ کے دور دراز مقامات تک اس کی شہرت ہو گئی اور عیسائی لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہاں آبادی قائم ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد وہ ریاست السیٹریاس کا حاکم نشین شہر اور دارالسلطنت بن گیا اور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے تمام صوبہ جلیقیہ کو بھی قدرتاً اپنے ہی زیر اثر لے آیا۔ سپہ سالار عبدالکریم کئی سال کے بعد ۲۰۳ھ میں سالماً غائماً ملک فرانس سے واپس ہوا اور یہ مہم بڑی کامیاب سمجھی گئی کہ فرانسیسیوں کو ان کی گستاخی کی اچھی طرح سزا دے دی گئی مگر افسوس ہے کہ اس طرف مطلق توجہ نہ ہوئی کہ ریاست گاتھک مارچ اور السیٹریاس کا نام و نشان مٹایا جاتا بلکہ ان دونوں عیسائی ریاستوں کے وجود کو بہت ہی غنیمت سمجھا گیا کہ ان کے ذریعہ باقاعدہ حکومت اس علاقے میں قائم ہے جہاں مسلمان جانا اور رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ملک فرانس میں رہنے کے لیے بھی کوئی عرب سردار رضا مند نہ تھا اور اسی خیال سے مسلمانوں نے بار بار فرانس کو فتح کیا مگر اس کی قدر و قیمت اس کی سرد آب و ہوا کے سبب کچھ نہ سمجھی۔ وہاں سے مال غنیمت کے حاصل ہونے اور وہاں کے رئیسوں سے خراج و صول کر لینے ہی کو کافی سمجھتے رہے۔ ہر ایک عربی نژاد سردار جب ناربون‘ جلیقیہ اور جبل البرتات کے متصلہ سرد علاقے میں عامل مقرر کر کے بھیجا جاتا تو وہ کبیدہ خاطر ہوتا اور جنوبی گرم و معتدل اور میدانی علاقوں میں رہنے اور جنوبی شہروں کا عامل مقرر ہونے کو اپنی خوش نصیبی جانتا۔ قحط و خشک سالی کی مصیبت اور اس کا انسداد ۲۰۳ھ کے بعد اندلس میں حکم کے لیے امن و امان اور اطمینان کا زمانہ شروع ہوا تھا کیونکہ اب ملک میں نہ کوئی بغاوت تھی نہ کسی حملہ آور عیسائی کو روکنا تھا۔ نہ اور کسی حملہ کا اندیشہ تھا۔ لیکن قضاد و قدر نے یہ تجویز کر دیا تھا کہ حکم کا تمام عہد حکومت مصروفیت اور ہنگامہ آرائی میں بسر ہو چنانچہ اب جب کہ ہر قسم کے حملے ختم