تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واقعات کو بھی تحقیق کروں گا۔ قیصر کو چونکہ بار بار سلطان ار خان سے امداد طلب کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور خانگی جھگڑے ان ایّام میں اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیے ہوئے تھے لہٰذا قیصر نے گیلی پولی کے تخلیہ پر پھر اصرار نہیں کیا اور سلیمان خان نے اس کو نہیں چھوڑا۔ گیلی پولی کا قبضہ سلیمان خان کے لیے اس لیے بھی بے حد ضروری تھا کہ وینس والوں کی دستبرد سے ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کو محفوظ رکھنے میں وہ بہت معاون تھا۔ یہ واقعہ ۷۵۷ھ کا ہے اس کے دو سال بعد ۷۵۹ھ میں ار خان کا بیٹا سلیمان خان باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ سلیمان خان بڑا ہونہار بہادر اور عقل مند شہزادہ تھا۔ اس کے فوت ہونے کا ار خان کو سخت صدمہ ہوا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو ار خان کے بعد تخت نشین سلطنت ہوتا۔ اس صدمہ جان کاہ نے ار خان کو بہت مضمحل کیا اور وہ ۷۶۱ھ میں ۳۸ سال سلطنت کرنے کے بعد ۷۵ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ ار خان نے اپنے باپ کی وصیت اور حکمت عملی پر خوب احتیاط کے ساتھ عمل کیا۔ اس نے اپنے باپ کی قائم کی ہوئی سلطنت کو وسعت دے کر یورپ کے ساحل تک پہنچا دیا۔ ار خان کی تمام تر توجہ یورپ کی جانب مائل تھی اس کا ایک ثبوت یہ واقعہ بھی ہے کہ جب اس کے بیٹے سلیمان خان کا بروصہ کے قریب باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تو اس نے سلیمان خان کو بروصہ میں دفن نہیں کیا۔ بلکہ اس کی لاش کو درہ دانیال کے اس طرف ساحل یورپ میں جو سلیمان خان کا فتح کیا ہوا عثمانیہ سلطنت کا مقبوضہ تھا لے جا کر دفن کیا۔ تاکہ ترکوں کو ساحل یورپ کے چھوڑنے اور وہاں سے پیچھے ہٹنے کا خیال پیدا نہ ہو۔ مراد خان اول اپنے بڑے بیٹے سلیمان خان کی وفات کے بعد سلطان ار خان نے اپنے چھوٹے بیٹے مراد خان کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ چنانچہ ار خان کی وفات کے بعد مراد خان جس کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی ۷۶۱ھ میں تخت نشین ہوا مراد خان کی خواہش یہی تھی کہ یورپ میں اپنی سلطنت کو وسعت دے۔ لیکن تخت نشینی کے بعد ہی قرمان کی ترکی سلجوقی ریاست کی بغاوت فرو کرنے میں اس کو ایشیائے کوچک کے مشرقی علاقے کی طرف مصرورف رہنا پڑا اس کے بعد ۷۶۲ھ میں اپنی فوج لے کر ساحل یورپ پر اترا اور ایڈریا نوپل (اور نہ) کو فتح کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا اس وقت یعنی ۷۶۳ھ سے فتح قسطنطنیہ تک جو سلطان محمد خان ثانی کے عہد میں ہوئی ایڈریا نوپل سلطنت عثمانیہ کا دارالسلطنت رہا۔ ایڈریا نوپل کی فتح کا حال سن کر بلگیریا اور سرویا والوں کو فکر پیدا ہوئی۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے پوپ روم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ جہاد کا وعظ کریں اور مسلمانوں کی روک تھام کے لیے فوجیں بھیجیں چنانچہ پوپ نے فوجیں روانہ کیں۔ ادھر ہنگری اور بوسینیا وغیرہ کے عیسائی سلاطین بھی سرویا اور بلگیریا کی طرح مستعد ہو گئے اور ان متحدہ عیسائی افواج نے ۷۶۵ھ میں ایڈریا نوپل کی طرف کوچ کیا۔ مراد خان نے اپنے سپہ سالار لالہ شاہین نامی کو بیس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا۔ ایڈریا نوپل سے دو منزل آگے عیسائی لشکر عظیم سے جس کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوئی تھی مقابلہ ہوا۔ اس معرکہ میں عیسائیوں کی اس متحدہ افواج نے مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست فاش کھائی۔ اور فرار کی عار کو قرار پر ترجیح دے کر بھاگتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کی تلواروں سے مفتول اور بہت سے اسیر و دست گیر ہوئے۔ لالہ شاہین نے آگے