تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موافق قرطبہ میں مقیم یا یوں کہیے کہ نظر بند تھا‘ قرطبہ پر قابض ہونے کے بعد عبدالرحمن کو دو سال تک ملک کے صوبوں پر تسلط قائم کرنے اور سرکشوں کو اطاعت پر مجبور کرنے میں صرف کرنے پڑے‘ اسی دوران میں عبدالرحمن کو ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے ہم قوموں کو جہاں کہیں وہ بنو عباس کی تلوار سے بچ گئے ہوں اپنے پاس بلوائے اور بربریوں کی ایک فوج مرتب کرے جن سے حمایت و ہمدردی کی اس کو توقع تھی‘ خاندان بنو امیہ کا ایک شخص عبدالملک بن عمر بن مروان بن حکم اور اس کا بیٹا عمر بن عبدالملک عباسیوں کی تلوار سے بچے ہوئے ابھی تک مصر میں موجود تھے‘ انہوں نے جب اندلس پر قبضہ کا حال سنا تو مصر سے روانہ ہوئے اور بنو امیہ کے دس اور آدمی بھی جو ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے ان کے ساتھ شامل ہو گئے اس طرح یہ بارہ آدمیوں کا قافلہ اندلس میں عبدالرحمن کے پاس پہنچ گیا‘ عبدالرحمن اپنے ان دو رشتہ داروں کو دیکھ کر بہت ہوا‘ عبدالملک بن عمر کو اشبیلیہ کی اور عمر بن عبدالملک کو مورور کی حکومت پر مامور کیا۔ اس اجنبی ملک میں عبدالرحمن بالکل تنہا تھا اور مسلمانان اندلس کے مختلف فرقوں اور گروہوں سے اس کو یہ توقع نہ تھی کہ وہ سب کے سب عباسیوں کی مخالفت پر آمادہ ہو سکتے ہیں‘ اس لیے اس نے اول اول اپنے آپ کو اسی طرح ایک امیر اندلس کی حیثیت میں رکھا جیسا کہ اس سے پہلے بھی اندلس کے امیر ہوتے رہے تھے‘ خطبہ میں وہ خلیفہ عباسی ہی کا نام لیتا تھا‘ حالانکہ دل سے وہ عباسیوں کا دشمن تھا اور ان کو اپنا دشمن جانتا تھا ان ہم قوم اور ہم قبیلہ بلکہ قریبی رشتہ داروں کو اس نے اپنے لیے بہت ہی غنیمت سمجھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے جو وہ بلاتامل دے سکتا تھا دیے‘ اندلس کے اندر عبدالرحمن کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہی بہت سے ایسے لوگ پیدا ہو چکے تھے جو دلی طور پر عبدالرحمن کی حکومت سے خوش نہ تھے‘ اب جب کہ عبدالرحمن نے ۱۴۱ھ میں عبدالملک اور اس کے بیٹے عمر کو اشبیلیہ وغیرہ کی حکومت عطا کی تو ان لوگوں کو آزادانہ اور پہلے سے زیادہ چہ مگوئیوں کا موقعہ مل گیا اور غدر و بغاوت کی تحریک جلد جلد نشوونما پا کر خطرناک صورت اختیار کر گئی۔ یوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کا قتل تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کو لوگوں نے ابھارا‘ وہ قرطبہ سے چھپ کر بھاگ نکلا مگر اس کے دونوں بیٹے ابوزید عبدالرحمن اور ابو الاسود قرطبہ سے نہ نکل سکے‘ وہ قرطبہ ہی میں رہ گئے‘ ضمیل بن حاتم یوسف بن عبدالرحمن فہری کا وزیر بھی قرطبہ سے نہ نکل سکا‘ یہ تینوں نظر بند اور قید کر لیے گئے‘ یوسف فہری قرطبہ سے بھاگ کر طیطلہ پہنچا‘ قرارداد کے موافق ہر طرف سے لوگ آ آ کر اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور بہت جلد بیس ہزار آدمیوں کا لشکر اس کے جھنڈے کے نیچے طیطلہ میں مرتب ہو گیا۔ یوسف بن عبدالرحمن اس لشکر کو لے کر اشبیلیہ پر حملہ آور ہوا اور عبدالملک بن عمر کا محاصرہ کر لیا‘ عبدالملک مدافعت پر آمادہ ہو گیا‘ یوسف نے اشبیلیہ کی فتح میں زیادہ وقت صرف کرنا مناسب نہ سمجھ کر محاصرہ اٹھا لیا اور قرطبہ کی جانب روانہ ہوا ادھر عبدالملک کا بیٹا عمر اپنے باپ کے محصور ہونے کی خبر سن کر اشبیلیہ کی جانب روانہ ہو گیا تھا دونوں باپ بیٹوں نے مل کر یوسف بن عبدالرحمن کی فوج کا تعاقب کیا‘ ادھر امیر عبدالرحمن کو جب یہ معلوم ہوا کہ یوسف بیس ہزار فوج لیے ہوئے قرطبہ کی جانب آ رہا ہے تو وہ قرطبہ سے نکل کر خود یوسف کی طرف بڑھا‘ راستے میں مقابلہ ہوا‘ سامنے سے عبدالرحمن نے حملہ کیا