تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مغولان چنگیزی ہلاکو خاں کی چڑھائی اور بغداد کی تباہی کا حال اوپر کسی باب میں بیان ہو چکا ہے سلطنت اسلامیہ اندلس کے حالات بھی ہم ختم کر چکے ہیں۔ خلفائے عباسیہ مصر کا اجمالی تذکرہ بھی اوپر آ چکا ہے۔ عبیدیین مصر کو بھی خلافت و امامت کا دعویٰ تھا۔ ان کے حالات بھی اس سے پہلے باب میں بیان ہو چکے ہیں۔ دسویں صدی ہجری کے ابتدائی حصے میں مصر کے آخری عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم عثمانی کو خلافت سپرد کی اور اس کے بعد خاندان عثمانیہ کے سلاطین خلفائے اسلام کہلائے۔ اختصار کو مد نظر رکھنے اور سلسلہ خلافت اسلامیہ کو بیان کرنے والے مؤرخ کے لیے جائز تھا کہ وہ ناقابل التفات اور چھوٹی چھوٹی اسلامی حکومتوں کو چھوڑ کر خلافت عثمانیہ کا حال بیان کر کے اپنی تاریخ کو زمانہ موجودہ تک پہنچا دیتا۔ لیکن میں نے سلطان سلیم عثمانی تک خلافت اسلامیہ کے پہنچنے کا حال بیان کر کے پھر عہد ماضی کی طرف واپس ہونا ضروری سمجھا اور بعض ان اسلامی حکومتوں کا ذکر لازمی خیال کیا جو کسی نہ کسی وجہ سے قابل التفات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے کے لیے ضروری سمجھی جا سکتی تھیں۔ اس طرح ہم کو سلطنت عثمانیہ کی ابتداء سے پہلے کے تمام اہم اور ضروری حالات سے فارغ ہو جانا چاہیے اس کے بعد سلطنت عثمانیہ روم اور اس کی معاصر سلطنتوں کے حالات بیان ہونگے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی اسلامی حکومت کا حال میں اس نہ لکھوں گا۔ کیونکہ ہندوستان کی ایک الگ مستقل تاریخ لکھنے کا عزم ہے اور اس میں ہندوستان کی حکومت اسلامیہ کے تفصیلی حالات بیان ہونگے اس وقت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں کے خروج کا ذکر کیا جائے۔ جس کو مؤرخین نے فتنہ تاتار کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس طرح مغلوں کے تین سو سال کے ابتدائی حالات پڑھنے کے بعد۔ اور شام و ایران کی بعض اسلامی سلطنتوں کے حالات سے فارغ ہو کر ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ شروع کر دیں۔ ترک و مغول و تاتار ایک شبہ کا ازالہ تاریخ پڑھنے والے طالب علم کو تاریخی کتابوں کے مطالعہ میں سب سے بڑی دقت یہ پیش آتی ہے کہ وہ ترک‘ مغل۔ تاتار ترکمان‘ قرا تاتار وغیرہ قوموں میں نہ امتیاز کر سکتا ہے نہ ان کی تفریق اور اصلیت سے واقف ہو سکتا ہے۔ وہ کبھی تاریخ میں پڑھتا ہے کہ سلجوقی لوگوں مثلاً الپ ارسلان و طغرل بیگ ترک تھے۔ پھر وہ چنگیز خان کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ مغل تھا۔ دوسری جگہ اسی کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ ترک تھا۔ پھر چنگیز خان کے فتنہ کو وہ فتنہ تاتار کے نام سے موسوم دیکھ کر قیاس کرتا ہے کہ مغل‘ ترک اور تاتار ایک ہی قوم کا نام ہے۔ لیکن آگے چل کر وہ مغلوں اور ترکوں کی مخالفت اور لڑائیوں کا حال پڑھتا ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ مغل اور ترک دو الگ الگ قومیں ہیں پھر وہ ہندوستان کے مغلوں کی تاریخ پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ بعض سرداروں کو ترک کہا جاتا ہے اور وہ سلاطین مغلیہ سے رشتہ داریاں رکھتے ہیں۔ پھر دیکھتا ہے کہ مغلوں کو مرزا کہا جاتا ہے اور ان کے نام کے ساتھ بیگ کا خطاب ضرور ہوتا ہے دوسری طرف تیمور بایزید کو برسر پیکار دیکھتا ہے مگر ایران کے بادشاہوں کے نام