تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا اس قدر عظیم الشان کشت و خون کرا کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے چنانچہ اس نے سلطان کے پاس ایک درخواست بھیج کر اپنی خطا کی معافی چاہی۔ اور عیسائیوں کا ساتھ چھوڑ کر قرطبہ میں چلا آیا۔ سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ میں واپس پہنچ کر زبردست فوجیں عیسائی ممالک کی طرف بھیجیں۔ ان اسلامی فوجوں نے پہنچ کر ہر جگہ عیسائیوں کو شکست فاش دی اور ان کو جنگ خندق کی فتح عظیم سے فائدہ اٹھانے کا مطلق موقعہ نہ دیا۔ یہاں تک کہ حدود فرانس تک فاتحانہ پہنچ کر اور بہت کچھ مال غنیمت لے کرو واپس آئیں۔ خلافت عباسیہ میں انقلاب اسی سال یعنی ۳۲۷ھ میں سلطان کے پاس عباسی خلیفہ مقتدر کے مقتول ہونے خلافت عباسی کے برائے نام باقی رہنے اور عبیدیین کے دعویٰ خلافت کی خبریں پہنچیں سلطان عبدالرحمن ثالث نے یہ دیکھ کر کہ اب خاندان عباسیہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا اور عبیدیین سے اندلس کے مسلمانوں کو بوجہ ان کے شیعہ ہونے کے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ مناسب سمجھا کہ امیرالمومنین اور خلیفۃ المسلمین کا خطاب اختیار کر لے۔ چنانچہ اس نے اپنے امیر المومنین ہونے کا اعلان کیا۔ اور ناصرلدین اللہ کا لقب اختیار کیا۔ اس خطاب اور لقب کی کسی نے مخالفت نہیں کی اور حقیقت بھی یہ تھی کہ اس زمانے میں وہی عالم اسلام کے اندر سب سے زیادہ خلینقہ المسلمین کہلائے جانے کا مستحق بھی تھا اس کے بعد امیر المومنین عبدالرحمن نے قرطبہ کی رونق و شان بڑھانے اور خوب صورت عمارات بنانے کی طرف توجہ مبذول کی اور آٹھ دس سال تک برابر ہر سال شمالی عیسائی ریاستوں کی سرکوبی کے لیے افواج بھیجتا رہا۔ عیسائیوں کو اسقدر مجبور و مغلوب کیا گیا کہ ہر ایک نے اظہار عجزو انکسار ہی کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنایا اور شمالی عیسائیوں کی سرکشی و بغاوت کا خطرہ بالکل جاتا رہا۔ اندلس کے واقعات جو اب تک بیان ہو چکے ہیں ان کے مطالعہ سے خلیفہ عبدالرحمن کی یہ غلطی بالکل صاف نظر آتی ہے کہ اس نے باوجود اس کے کہ ان شمالی عیسائی ریاستوں کے حالات دیکھے سنے تھے۔ مگر پھر بھی موقعہ پا کر ان کے وجود کو مکمل طور پر متاصل کرنا نہ چاہا۔ اور ان کو اپنا مغلوب دیکھ کر باقی رہنے دیا۔ خلیفہ عبدالرحمن ۳۳۰ھ کے بعد بڑی آسانی سے ان تمام عیسائی ریاستوں کو جو مسلمانوں کے مفتوحہ ملک میں مسلمانوں کی غفلت کے سبب پیدا ہو گئی تھیں۔ ایک ایک کر کے مٹا سکتا اور اپنے مسلمان عامل مقرر کر سکتا تھا لیکن اس نے بھی جزیرہ نما کے اندر ان عیسائی ریاستوں کے وجود کو باقی رکھا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اولاد کے لیے سخت مضر ثابت ہوا۔ اس زمانے میں غالباً یہ تصور بھی نہ ہو سکتا ہو گا کہ کسی دن مسلمانوں کی اولاد ایسی ضعیف و ناتواں ہو جائے گی کہ یہ عیسائی نواب جو آج فرماں برداری کا اقرار کر رہے ہیں۔ اندلس سے اسلام کا نام و نشان مٹا سکیں گے امیر المومنین بننے کے بعد عبدالرحمن ثالث نے دار الخلافہ قرطبہ سے باہر قدم نہیں رکھا۔ اور جب کبھی ضرورت ہوئے اپنے سرداروں کو فوجیں دے کر لڑائیوں پر بھیجا۔ بحری و بری قوت میں اضافہ ۳۲۸ھ سے بحیثیت مجموعی خلیفہ ناصر کے لیے اطمینان و فراغت کا زمانہ شروع ہوا۔ کوئی پریشان کرنے والی بات بظاہر باقی نہ تھی۔ اسی فرصت میں خلیفہ ناصرلدین اللہ یعنی عبدالرحمن ثالث نے بحری قوت کے بڑھانے اور ساتھ ہی بری فوجوں کے باترتیب بنانے