تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہر ایک بادشاہ کے لئے نیا تاج بنایا جاتا تھا اور فوت شدہ بادشاہ کا تاج خزانہ میں رکھ دیا جاتا تھا‘ طیطلہ میں بھی طارق نے قیام نہیں کیا‘ بلکہ وہ اندلس کے انتہائی شمالی صوبہ تک شہروں کو فتح کرتا ہوا چلا گیا‘ ادھر مغیث الرومی نے چند روزہ محاصرہ کے بعد قرطبہ اور اس کے نواح کو فتح کر لیا اس طرح طارق نے جنوب سے لے کر شمال تک جزیرہ نما اندلس کا درمیانی حصہ فتح کر لیا‘ مشرق اور مغرب کی جانب کے صوبے باقی رہ گئے تھے۔ موسیٰ بن نصیر اندلس میں اسی اثناء میں امیر موسیٰ نصیر اندلس میں مع اپنی فوج کے داخل ہوا‘ کونٹ جولین کو طارق صوبۂ اندلوسیہ کے انتظام پر چھوڑ گیا تھا‘ سب سے پہلے کونٹ جولین نے امیر موسیٰ کا استقبال کیا اور اس کو طارق سے اس لئے ناراض دیکھ کر کہ طارق نے حکم کے خلاف پیش قدمی کیوں کی‘ مؤدبانہ عرض کیا کہ ابھی بہت سے ضروری شہر اور مغربی صوبے باقی رہ گئے ہیں‘ آپ طیطلہ جانے کے لئے مغربی جانب کا راستہ اختیار کریں اور راستے کے تمام شہروں کو فتح کرتے ہوئے جائیں تو خطرہ بالکل دور ہو جائے گا‘ موسیٰ بن نصیر نے اسی رائے پر عمل کیا اور طیطلہ تک شہروں کو فتح کرتا ہوا چلا گیا‘ امیر موسیٰ کے وارداندلس ہونے کی خبر سن کر طارق بھی طیطلہ کی جانب واپس ہوا اور طیطلہ میں موسیٰ و طارق کی ملاقات ہوئی۔ موسیٰ نے طارق کو حکم کی تعمیل نہ کرنے پر زجرو توبیخ کی اور چند روز کے لئے طارق کو قید بھی کر دیا‘ مدعا یہ تھا کہ نہ صرف طارق بلکہ دوسرے سرداروں کو بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ماتحت کے لئے افسر کے حکم کی تعمیل کرنا کس قدر ضروری ہے‘ اس تنبیہ کے بعد موسیٰ نے طارق کو قید سے آزاد کر کے اپنی تمام فوج کا سپہ سالار اعظم بنا دیا‘ اس کے بعد امیر موسیٰ بن نصیر نے طارق کو ایک زبردست فوج دے کر آگے روانہ کیا اور خود طارق کے پیچھے روانہ ہوا‘ طارق اندلس کے بقیہ شہروں کو فتح کرتا اور اہل شہر سے معاہدے کرتا ہوا روانہ ہوا‘ امیر موسیٰ ان معاہدوں کی تصدیق کرتا جاتا تھا‘ طارق و موسیٰ اندلس کے شمالی اور شمالی و مغربی شہروں کے فتح کرنے میں مصروف ہوئے اور موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز بن موسیٰ نے جنوبی و مشرقی علاقے کو فتح کرنا شروع کیا‘ شاہ لرزیق کا سپہ سالار تدمیر جنوبی و مشرقی علاقے میں فوج جمع کر کے عبدالعزیز کے مقابلے پر آیا‘ بہت سی لڑائیاں ہوئیں‘ مگر تدمیر کھلے میدان میں عبدالعزیز کا مقابلہ نہ کر سکا‘ وہ پہاڑوں میں چھپتا پھرتا تھا اور موقعہ پاکر کمین گاہ سے حملہ آور ہوتا تھا۔ آخر عبدالعزیز اور تدمیر کے درمیان صلح ہو گئی‘ عبدالعزیز نے ایک چھوٹا سال علاقہ تدمیر کو دے دیا جس پر وہ حکومت کرنے لگا‘ یہ شرط قرار پائی تھی کہ تدمیر حکومت اسلامیہ کے دشمنوں کو اپنے ہاں پناہ نہ دے گا اور مذہبی آزادی کو بہر طور پر قائم رکھے گا‘ ادھر طارق اور موسیٰ نے بھی ہر ایک شہر سے نہایت آسان شرائط پر معاہدے کئے‘ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ عیسائیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی‘ ان کے گرجائوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے تمام معاملات انہی کی مذہبی کتابوں اور مذہبی عدالتوں کے ذریعہ طے ہوں گے‘ جو شخص اسلام کو قبول کرنا چاہے اس کو کوئی عیسائی منع نہ کر سکے گا‘ عیسائیوں کے جان و مال اور املاک کی حفاظت کی جائے گی‘ طارق بن موسیٰ نے اپنے لشکریوں کو یہ بھی تاکیدی حکم دے رکھا