تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو چکے تو اندلس پر قحط و خشک سالی کا حملہ ہوا۔ یہ قحط نہایت عظیم الشان تھا اور قحط کی وجہ سے ملک میں چوری و ڈاکہ زنی کی وارداتیں بھی بڑی کثرت سے ہونے لگیں حکم نے جس طرح اب تک اپنے آپ کو ہر ایک موقعہ پر مستقل مزاج اور باحوصلہ ظاہر کیا تھا اسی طرح اس نے اس مصیبت میں بھی اپنی شاہانہ ہمت کا اظہار کیا۔ قحط زدہ لوگوں کی پرورش کے لیے اس نے ہر شہر و قصبے میں محتاج خانے کھلوا دیئے۔ غلہ کے باہر سے منگوانے کا اہتمام کیا جابجا راستوں اور آبادی کی حفاظت کے لیے زائد پولس اور فوجی دستے مقرر کیے۔ اس حالت میں جہاں کہیں کسی اہم بدامنی کی خبر پہنچی خود مع فوج اس طرف پہنچا اور امن و امان قائم کیا غرض اس نے اپنی رعایا کی اس قحط کے زمانہ میں ایسی دستگیری اور مدد کی کہ رعیت کا ہر ایک طبقہ اس سے محبت کرنے لگا اور وہ نفرت بھی جو مولویوں اور مولوی مزاج لوگوں نے اس کے متعلق پھیلا دی تھی دور ہو گئی۔ جو لوگ اس پر اس کی آزاد مزاجی کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے تھے اس کے مداح نظر آنے لگے۔ سلطان حکم کی وفات اور اولاد سلطان حکم کی نسبت خونخواری اور قتل کے عیب و الزام کو خاص طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ مگر اگر نظر غور سے دیکھا جائے تو اس میں شک نہیں کہ حکم نے بہت سے لوگوں کو قتل کرایا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں کو قتل کرایا گیا وہ مستحق قتل تھے یا نہیں اور سلطان حکم نے مجبوراً ان کو قتل کرایا یا صرف تفریح طبع کے لیے۔ سلطان حکم نے ۲۵ ذیقعدہ ۲۰۶ھ بروز پنجشنبہ بہ عمر ۵۲ سال چند ماہ وفات پائی اور بیس ۲۰ لڑکے بیس لڑکیاں چھوڑیں۔ سلطان حکم کے بعد اس کا بیٹا عبدالرحمن ثانی یا عبدالرحمن اوسط تخت نشین ہوا۔ حکم کی سیرت و کردار پر تبصرہ سلطان حکم بہادر‘ فیاض اور عاقبت اندیش شخص تھا مکاروں اور خفیہ سازشیں کرنے والوں کا دشمن اور اپنے دوستوں کے لیے بہت بامروت اور ہمدرد تھا‘ علماء وفضلاء کا قدردان اور شعراء کامربی تھا۔ میدان جنگ میں مستقل مزاج اور جہاں کہیں معاف کرنے سے اصلاح کی توقع ہو فوراً خطا کار کو معاف کر دیتا تھا۔ وہ اندلس کا ایک جلیل القدر اور عظیم الشان بادشاہ تھا۔ سلطان حکم کے دیندار اور با اللہ تعالیٰ ہونے کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس نے ایک روز اپنے کسی خادم پر ناراض ہو کر حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے۔ اتفاقاً اس وقت زیاد بن عبدالرحمن جو ایک عالم شخص تھے آ پہنچے اور سلطان حکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مالک بن انس نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جو شخص اپنے غیظ و غضب کو باوجود قدرت ضبط کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے قلب کو امن و اطمینان سے پر کر دے گا۔۱؎اس کلام کے ختم ہوتے ہی سلطان حکم کا غیظ و غضب کافور ہو گیا اور خادم کی خطا معاف کر دی۔ سلطان حکم کا ۲۷ سالہ عہد حکومت ہنگامہ آرائی اور بے اطمینانی کے عالم میں گزرا‘ اس بے اطمینانی اور بدامنی کے اسباب حکم کے پیدا کئے ہوئے نہ تھے بلکہ قدرتی دار ہونے والی افتادیں تھیں۔ اس زمانہ میں اگر حکم سے کسی قدر کم مستقل مزاج شخص تخت اندلس پر ہوتا تو یقیناً بنوامیہ کی حکومت اندلس سے مٹ جاتی اور وہاں کے مسلمانوں کا انجام خطرناک ہوتا۔ سلطان حکم کا نہایت سخت امتحان قدرت نے لیا اور وہ اس امتحان میں بظاہر کامیاب ہوا۔