تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اندر آب رسانی کے نل لگائے گئے اور پھر بہت جلد اندلس کے دوسرے شہروں میں بھی نلوں کا سلسلہ جاری ہو انئے نئے پر تکلف اور لذیذ و مقوی کھانے اور خوبصورت لباس اسی کی ایجاد ہیں۔ غرض اس ایک شخص کی کوششوں اور ایجادوں نے نہ صرف تمام ملک اندلس بلکہ تمام یورپ پر اپنا اثر ڈالا۔ چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانا بھی اسی کی ایجاد ہے اور یورپ والوں نے اندلس کے مسلمانوں ہی سے چھری کانٹے کے استعمال کو سیکھا تھا۔۱؎ علی بن نافع کو سلطان عبدالرحمن ثانی کے مزاج میں بخوبی رسوخ حاصل تھا اور سلطان اس کی بڑی عزت کرتا تھا‘ مگر اس نے کبھی کسی سیاسی معاملہ میں دخل نہیں دیا بلکہ اپنی تمام تر توجہ کو اصلاح معاشرت ہی کی جانب مبذول رکھا‘ اسی لیے وہ تمام ملک میں ہر دل عزیز و محبوب تھا اور کوئی اس کا دشمن و مخالف کبھی پیدا نہیں ہوا۔ اندلس والوں نے جہاں اس شخص کی وجہ سے لباس و غذا و مکان کے تکلفات سیکھے وہاں انھوں نے موسیقی کا شوق بھی اس سے حاصل کیا۔۲؎ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ علی بن نافع نے اندلس پہنچ کر وہاں کے سپاہی پیشہ مسلمانوں کو عیش پسند اور نازک مزاج بنانے کی موثر کوشش کی۔ اندلس میں مالکی مذہب کا فروغ قاضی یحییٰ بن یحییٰ مالکی کا اوپر ذکر آچکا ہے انہی قاضی صاحب کی کوششوں سے سلطان حکم کے زمانے میں قرطبہ کے اندر ایک خطرناک بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں قرطبہ کی آبادی کا پانچواں حصہ یعنی ایک دریا پار کا جنوبی محلہ بالکل ویران ہو گیا اور بیس پچیس ہزار آدمیوں کو اندلس سے جلا وطن ہونا پڑا تھا مگر قاضی صاحب آخر میں سلطان حکم کے مصاحبوں اور مشیروں میں داخل تھے‘ اب سلطان عبدالرحمن ثانی کی تخت نشینی کے بعد وہ سلطان عبدالرحمن کے مزاج میں بہت کچھ دخیل تھے۔ ان کو قاضی القضاۃ اور شیخ الاسلام کا عہدہ سلطان عبدالرحمن نے دینا چاہا۔ لیکن انھوں نے انکار کیا اور اس انکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قاضی القضاۃ کے بھی افسر سمجھے جانے لگے عوام ان کے بے حد معتقد تھے اور مذہبی معالات میں ان کا فیصلہ سب سے آخری سمجھا جاتا تھا قاضی صاحب بہت بڑے کثیر التصانیف شخص تھے وہ امام مالکa کے شاگرد رشید تھے انھوں نے کئی سال تک سیدنا امام مالکa کی خدمت میں رہ کر علم دین کو حاصل کیا تھا‘ اب سلطان عبدالرحمن ثانی کے عہد حکومت میں انھوں نے اپنے طرز عمل کے اندر بہت بڑی تبدیلی پیدا کر لی تھی‘ اب وہ اپنے اثر و رسوخ سے نہایت قابلیت کے ۱؎ چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانا کوئی شرف اور ترقی کا معیار نہیں۔ مسلمانوں میں بگاڑ اور تنزل کے بنیادی طور پر دو بڑے اسباب ہیں (۱) فرقہ بازی (۲) عیش پسندی۔ انہی وجوہات کے باعث مسلمان پستی کا شکار ہوئے اور ذلت و مسکنت ہم پر چھا گئی‘ اللھم احفظنا! ۲؎ اسلامی اندلس کا خاتمہ بھی اسی لیے ہوا کہ مسلمان عیش و تنعم کے عادی ہو گئے‘ اسی طرح وہ عیسائیوں کی تہذیب سے متاثر ہو کر موسیقی وغیرہ کا بھی شکار ہو گئے۔ رہی سہی کسر فرقہ بندی نے پوری کر دی۔ اس طرح وہ دین سے دور ہو کر قوت کھو بیٹھے اور بالآخر سقوط غرناطہ جیسا المناک حادثہ وجود میں آ گیا جو اس امت کے المناک ترین حادثات میں سے ایک تھا۔ ساتھ کام لے رہے تھے۔ وہ جس کسی شخص کی سفارش محکمہ قضا میں کر دیتے تھے وہ کبھی رد نہ ہوتی تھی لہٰذا ان تمام علماء نے جو کسی شہر یا قصبے کے قاضی بننا چاہتے تھے مالکی مذہب اختیار کیا اور اس طرح قاضی یحییٰ کی نگاہوں میں عزت و محبت کا