تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی ان کو میسر نہ تھے عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ جنگی اسیروں کو جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان محمد خان ثانی فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔ اس فتح کے بعد سلطان فاتح نے دیکھا کہ قسطنطنیہ کے اکثر گھر ویران اور غیر آباد ہو گئے ہیں۔ شہر کی رونق کو واپس لانے اور اس کی آبادی کو بڑھانے کے لیے سلطان فاتح نے ایشیائے کوچک سے پانچ ہزار مسلمان خاندانوں کو قسطنطنیہ میں لا کر آباد کرنے کا انتظام کیا ماہ رمضان ۸۵۷ھ تک یہ پانچ ہزار مسلم خاندان قسطنطنیہ میں آ کر آباد ہو گئے۔ اور قسطنطنیہ پہلے سے زیادہ پر رونق شہر بن گیا۔ شہر قسطنطنیہ کی تاریخ قسطنطنیہ کی یہ فتح دنیا کا نہایت ہی اہم اور عظیم الشان واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی فتح قسطنطنیہ پر یورپی مؤرخین کی اصطلاح میں مڈل ایجیز یعنی زمانہ وسطی ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد روشنی کا زمانہ یعنی دور جدید شروع ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ کے مختصر تاریخی حالات بیان کر دیئے جائیں۔ جس موقعہ پر قسطنطنیہ آباد ہے۔ اسی موقعہ پر سنہ عیسوی سے ۶۶۷ سال پہلے بائی زنیتم نامی ایک شہر کسی خانہ بدوش قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس شہر پر بہت سے حادثے گذرے اور وہ اپنے ارد گرد کے علاقے کا مرکزی شہر اور ایک مختصر سی ریاست کا دارالصدربن گیا۔ سکندر یونانی کے باپ فیلقوس نے اس شہر پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضہ میں لانا چاہا۔ اس نے رات کی تاریکی میں اپنی فوجوں کو شہر بائی زنیتم تک پہنچانا اور شہر پر اچانک قبضہ کرنا چاہا۔ اسی رات کی تاریکی میں جب کہ فیلقوس کی فوج شہر کی فصیل تک پہنچ گئی تھی شمال کی جانب سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور اس روشنی میں شہر والوں نے حملہ آور فوج کو دیکھ لیا اور فوراً مقابلہ کی تیاری اور مدافعت پر آمادہ ہو گئے۔ فیلقوس شہر والوں کو مستعد دیکھ کر واپس ہو گیا اور شہر اس طرح بچ گیا۔ شہر والوں نے اس آئی بلا کے ٹل جانے کو ڈائنا دیبی کا کمال و تصرف تصور کیا اور اس خوشی میں دیبی مذکور کا مندر تعمیر کر کے ہلال کو اپنے شہر کا نشان مقرر کیا۔ اس کے چند روز بعد سکندر نے اس شہر کو فتح کر کے اپنے باپ کی ناکامی کا بدلہ لے لیا۔ سکندر کے بعد بائی زنتیم کو مختلف قوموں نے اپنی تاخت و تاراج کا تختہ مشق بنا لیا۔ اس کے بعد قیصر قسطنطین اول نے اس علاقے کو فتح کیا تو وہ شہر بائی زنتینم کے خوش فضا محل و قوع کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور اس نے اس شہر اور اس کے متصلہ رقبہ کو شامل کر کے شہر آباد کیا تاکہ اس کو اپنا دارالحکومت بنائے۔ اس جدید شہر کا نام اس نے روما جدید رکھا مگر وہ قسطنطین اپنے بانی کے نام پر قسطنطنیہ مشہور ہوا۔ قسطنطین اول نے قسطنطنیہ کو ۳۲۷ھ میں آباد کیا۔ اس سے پہلے تک قسطنطین اور اس کے باپ دادا سب بت پرست اور لامذہب تھے لیکن قسطنطین نے خود دین عیسوی قبول کر کے قسطنطنیہ کو اس کی آبادی سے تین سال بعد حضرت مریم ؑ کی نذر کیا اور خوب خوشی منائی لہٰذا مئی ۳۳۰ء سے قسطنطنیہ مخصوص عیسائی شہر سمجھا جانے لگا۔ اس کے بعد سلطنت روما جب دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو قسطنطنیہ مشرقی سلطنت کا مستقل دارالسلطنت قرار پایا۔ اس سلطنت یعنی مشرقی روم کو کامل عروج قیصر جسٹینن کے عہد