تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
محمد بن ابی عامر بہت تھوڑی عمر میں قرطبہ آ کر سرکاری مدرسہ میں داخل ہو کر پڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ فارغ التحصیل ہو کر اس نے ایوان شاہی کے متصل ایک دوکان کرایہ پر لی اور اس میں بیٹھ کر عرائض نویسی کا پیشہ اختیار کیا۔ اجرت لے کر لوگوں کے خطوط‘ کچہریوں میں پیش ہونے والی عرضیاں لکھ دیا کرتا تھا۔ یہی اس کا ذریعہ معاش تھا۔ اتفاقاً ملکہ صبح یعنی مادر ہشام کو ایک محرر کی ضرورت ہوئی جو اس کی ذاتی جائداد کا حساب کتاب لکھا کرے کسی خواجہ سرا نے محمد بن ابی عامر کی ملکہ سے سفارش کر دی۔ چنانچہ محمد بن ابی عامر ملکہ کے ہاں محرروں میں نوکر ہو گیا۔ اس کی حسن کار گزاری کی شہرت اور ملکہ کی سفارش نے اس کو چند روز کے بعد اشبیلیہ کے محصولات کی وصولی کا افسر مقرر کر دیا۔ اس عہدے پر فائز ہو کر چونکہ اس کو قرطبہ سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ لہٰذا اس نے ملکہ صبح کی خدمت میں عرض معروض کر کے ملکہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ خلیفہ حکم کی خدمت میں سفارش کر کے اس کو قرطبہ ہی میں کوئی عہدہ دلا دے چنانچہ اس کو محکمہ دار الضرب کا افسر و مہتمم بنا دیا گیا۔ اس عہدہ جلیلہ پر پہنچ کر محمد بن ابی عامر نے اپنی قابلیت کا خوب اظہار کیا۔ ملکہ صبح کو بھی قیمتی تحائف کے ذریعہ خوش رکھا۔ وزیر مصحفی اور دوسرے امراء کو بھی اپنا ہمدرد وخیر خواہ بنا لیا۔ اور بہت جلد اس قدر اعتبار پیدا کر لیا کہ خلیفہ حکم نے مرنے سے پہلے اس کو شہزادہ ہشام کا اتالیق مقرر کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کے کار نامے خلیفہ حکم کی وفات اور مغیرہ کے قتل کے بعد جب ہشام تخت نشین ہوا۔ تمام کاروبار سلطنت وزیر جعفر مصحفی کے ہاتھ میں آ گیا۔ سپہ سالار غالب بظاہر وزیر جعفر کا رقیب سمجھا جاتا تھا۔ ملکہ صبح پہلے سے زیادہ امور سلطنت میں دخیل اور حاوی ہو گئی تھی۔ اس کی سب عزت کرتے تھے۔ اور وہ محمد بن ابی عامر پر زیادہ مہربان تھی۔ محمد بن ابی عامر نے وزیر جعفر اور سپہ سالار غالب کو مشورے دے کر سب سے پہلے خواجہ سرائوں کے زور کو تڑوایا۔ فائق کو میورقہ میں جلا وطن کر دیا۔ جہاں وہ گمنامی کے عالم میں فوت ہوا۔ جوذر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ ان کی جماعت کے لوگوں کو منتشر کر دیا گیا۔ اسی حالت میں شمالی عیسائیوں کے حملہ آور ہونے اور خراج کی ادائیگی سے انکار کرنے کی خبریں پہنچیں۔ وزیر جعفر نے محمد بن ابی عامر کو فوج دے کر عیسائیوں کے مقابلہ اور سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ محمد بن ابی عامر نے شمالی حدود میں پہنچ کر عیسائیوں کو پہیم اور عبرت آموز شکستیں دیں اور وہاں سے سالماً غانماً واپس آیا۔ ان فتوحات کی خبریں پہلے ہی قرطبہ میں پہنچ چکی تھیں۔ اور محمد بن ابی عامر کی قبولیت اور عظمت دلوں میں بہت بڑھ گئی تھی۔ اہل قرطبہ نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ اور دربار میں قدرتی طور پر اس کا اثر اور اختیار پہلے سے دو چند ہو گیا۔ اب محمد بن ابی عامر نے غالب کو اپنا شریک وہم خیال بنا کر مصحفی کو وزارت سے معزول اور ذلیل کرا دیا۔ یہاں تک کہ اس کو قید کر دیا۔ اسی حالت میں وہ فوت ہوا۔ غالب چونکہ تمام افواج اندلس میں محبوب و ہر دل عزیز تھا۔ لہٰذا اس پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہ تھا۔ محمد بن ابی عامر نے فوجی بھرتی جاری کی۔ جس میں شمال کے پہاڑی عیسائیوں اور مراکش و طرابلس الغرب کے بربریوں کو بھرتی کیا۔ محمد بن ابی عامر اب تنہا وزیر اعظم تھا۔ غالب کی خاطر مدارات اور تعظیم و تکریم حد سے زیادہ کرتا تھا۔ غالب کی بیٹی سے اس نے شادی کر لی تھی۔ اس لیے غالب کی طرف سے اس کو کوئی خطرہ نہ تھا۔