تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیچھے سے عبدالملک اور عمر آگئے‘ یوسف کی فوج کے بہت سے آدمی مارے گئے اور یوسف شکست کھا کر بے سر و سامانی کے ساتھ طیطلہ کی جانب بھاگا‘ طیطلہ کے قریب پہنچا تھا کہ اس کی فوج کے یمنی لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر یوسف کو ہم قتل کر دیں اور اس کا سر امیر عبدالرحمن کے پاس لے جائیں تو وہ اس خدمت کا صلے میں ہم سے خوش ہو جائے گا اور ہماری اس خطا کو کہ ہم نے بغاوت میں شرکت کی ہے معاف کر دے گا‘ چنانچہ یمنیوں نے یوسف کو طیطلہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا اور اس کا سر لے کر عبدالرحمن کی خدمت میں پہنچ گئے۔ یوسف فہری بڑا بہادر اور نامور سپہ سالار تھا وہ اندلس کا امیر رہ چکا تھا اس میں سخاوت و مروت کا مادہ بھی بہت تھا مگر لوگوں کے دھوکا دینے سے دھوکا کھا جاتا تھا‘ اس مرتبہ بھی یوسف نے فریب کھایا اور لوگوں کی باتوں میں آ کر اس طرح اپنی جان کو گنوایا اس تلخ تجربہ کے بعد امیر عبدالرحمن کے لیے یہ جائز ہو گیا تھا کہ وہ ضمیل بن حاتم اور یوسف کے بیٹوں کو قتل کرا دے‘ چنانچہ ابن حاتم اور ابوزید بن یوسف تو قتل کیے گئے مگر ابوالاسود کو بوجہ اس کے کہ اس کی عمر تھوڑی تھی قرطبہ کے متصل ایک پہاڑی قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا‘ فتنہ یوسف کے فرو ہو جانے کے بعد باغیوں اور سرکشوں کی ہمتیں پست ہو گئیں اور بظاہر امیر عبدالرحمن کا تسلط پورے طور پر قائم ہو گیا امیر عبدالرحمن نے فہری خاندان کے سرکشوں کی لاشوں کو جو اس بغاوت میں مقتول ہوئے تھے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے قرطبہ کے باہر صلیب پر لٹکوا دیا تھا‘ بظاہر تو لوگوں پر ہیبت طاری ہوئی لیکن اندر ہی اندر فہریوں کی ہمدردی کا جذبہ بھی ترقی کرتا رہا۔ ابو الاسود بن یوسف فہری جو قرطبہ کے باہر ایک قلعہ میں قید تھا ان نے ایک عرصہ کے بعد اپنے آپ کو نابینا ظاہر کیا اور کہا کہ میری بصارت جاتی رہی ہے‘ محافظوں نے اس کو اندھا سمجھ کر نگرانی میں احتیاط برتنی ترک کر دی وہ صبح کو قلعہ سے باہر ندی کے کنارے پیشاب پاخانے کے لیے لاٹھی ٹیکتا ہوا چلا جاتا اور وہاں سے فارغ ہو کر کہتا کہ کوئی اللہ کا بندہ اندھے کو راستہ بتا دے اور قلعہ تک پہنچا دے‘ اسی وقت اس طرف بہت سے فوج کے سپاہی بھی حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے جایا کرتے تھے ان میں سے کوئی شخص اس مصنوعی اندھے کا ہاتھ پکڑ کر قلعہ کے دروازے تک پہنچا دیا کرتا تھا۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی نگرانی کرنے والے بالکل بے فکر اور مطمئن ہو گئے کہ یہ بھاگ کر نہیں جا سکتا‘ ابوالاسود کے پاس اس کا ایک غلام ندی کے کنارے آنے لگا اس کی معرفت ابوالاسود نے اپنے ہمدردوں کو سلام پیام بھیجنے شروع کر دئیے اور ایک روز گھوڑوں کی ڈاک بٹھا کر ۱۶۴ھ میں اس قید سے آزاد ہو کر نکل بھاگا‘ اس کا ذکر آگے ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گا۔ اندرونی انتظام یوسف فہری سے فارغ ہو کر امیر عبدالرحمن نے ملک کے اندرونی انتظام کی طرف توجہ کی اور ہر قسم کی شاہانہ علامات فراہم کرنے کے بعد ۱۴۶ھ میں اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے عباسی خلیفہ کا نام خطبہ سے خارج کر دیا۔ عباسیوں کی خلافت مشرق میں ابھی نئی نئی قائم ہوئی تھی اور وہ ابھی تک مشرق کے جھگڑوں اور فتنوں سے پورے طور پر فارغ و مطمئن نہ ہوئے تھے‘ اس لیے عبدالرحمن