تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھے‘ ان حکام کے مدد گار قاضی اور دیگر حکام ہوتے تھے‘ صدر دفتر قرطبہ کو یہ لوگ تمام ضروری اطلاعات بھیجتے رہتے تھے‘ عبدالرحمن ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا اس نے ایسے قوانین جاری کئے تھے کہ رعایا خوش حال ہو اور اپنے املاک پر آزادی کے ساتھ بلا مداخلت غیرے قابض و متصرف رہے۔ عبدالرحمن کو تعلیم اور علم و ادب کی اشاعت کا خاص طور پر شوق تھا تمام ملک اندلس میں میں عبدالرحمن نے سڑکیں بنوائیں‘ ڈاک کا انتظام کیا‘ ہر پڑائو پر گھوڑے رکھے تاکہ جلد از جلد ملک کے ہر حصے سے دارالخلافہ قرطبہ میں اطلاعات پہنچ سکیں۔ عبدالرحمن نے لٹیروں اور ڈاکوئوں کا طاقت و سطوت کے ساتھ بالکل انسداد کر دیا تھا بربری لوگ جو اپنی عادت سے کبھی بازنہ آئے تھے‘ پہلی مرتبہ امیر عبدالرحمن ہی کے زمانہ میں وہ خاموش ہو کر بیٹھے‘ عبدالرحمن اپنی ممالک محروسہ کا ہمیشہ دورہ کرتا رہتا تھا تاکہ اپنے عاملوں کا اندازہ کرے کہ وہ اس کی رعایا پر کس طرح حکومت کرتے ہیں‘ جہاں جہاں امیر کا گذر ہوتا وہاں کے محتاجوں اور عسیرالحال لوگوں کی دستگیری کرتا اور لوگوں کی اصلاح اور فائدے کے کام جاری کرتا‘ امیر عبدالرحمن کی فیاضیاں عام تھیں اور سب ان سے مستفیض ہوتے تھے۔ اگرچہ عبدالرحمن نے ہر جگہ مسجدیں اور رفاہ عام کی عمارتیں بنوائیں‘ لیکن دار الحکومت قرطبہ کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے اس نے خوبصورت عمارتیں بنانے میں زیادہ ہمت و توجہ صرف کی‘ محل شاہی کے صحن میں عبدالرحمن نے خرما کا ایک درخت نصب کرایا جو کہ اندلس میں خرما کا پہلا درخت تھا‘ قرطبہ کے قریب ایک باغ رصافہ کے نام سے لگایا جو اپنے دادا ہشام کے باغ رصافہ کے نمونہ پر تھا‘ قرطبہ میں ایک ٹکسال قائم کی جس میں دینار و درہم اسی نمونہ کے مسکوک کرائے‘ جیسے کہ شام میں رائج اور دمشق میں مسکوک ہوتے تھے‘ دنیا کے ہر حصے سے علماء و فضلاء کو بلوایا اور ان کی خوب قدر دانی کی‘ علمی تحقیقات اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لیے مجلسیں مقرر کیں‘ اپنے بیٹوں کو بہترین طریقہ پر تعلیم دلائی‘ اور ان کو حکم دیا کہ وہ دفتر شاہی اور قاضیوں کی کچہریوں میں حاضر ہو کر معاملات کو دیکھا کریں‘ اہم مقدمات اور سرکاری معاملات کے فیصلے بھی ان شہزادوں کے سپرد کئے جاتے تھے۔ عام لوگوں میں علم کا شوق پیدا کرنے کے لیے مشاعرے اور مناظرے کی مجلسیں مقرر ہوتی تھیں‘ اچھی نظموں اور علمی مناظروں کی کامیابی پر انعامات دیئے جاتے تھے امیر عبدالرحمن خود بھی ان تمام علمی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ اندلس کی عیش پسند آب و ہوا اور مال و دولت کی فراوانی نے امیر عبدالرحمن کے سپاہیانہ اخلاق میں کوئی تغیر پیدا نہیں کیا تھا اس کے اتقاء اور پرہیز گاری میں کسی وقت تغیر اور کمی محسوس نہیں ہوئی‘ قرطبہ کی مشہور آفاق مسجد کے لیے جو مقام سب سے زیادہ موزوں اور مناسب تھا وہ عیسائیوں کے قبضے میں تھا‘ امیر عبدالرحمن نے اس پر زبردستی قبضہ مناسب نہیں سمجھا جب خود ہی عیسائیوں نے اس کو فروخت کرنا چاہا تو امیر نے اس کو قیمت دے کر خریدا اور شہر کے متعدر مقامات میں ان کو گرجا تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ امیر عبدالرحمن میں تمام وہ صفات موجود تھیں جو ایک عقلمند سیاست دان اور روشن دماغ بادشاہ میں ہونی چاہیں‘ جس تاریخ سے امیر عبدالرحمن نے تخت اندلس پر قدم رکھا‘ اسی تاریخ سے ملک اندلس خلافت مشرقیہ اسلامیہ کی ماتحتی سے آزاد ہو گیا لیکن امیر