تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور عباسیہ پر زیادۃ اللہ کا قبضہ رہا۔ چالیس دن کی لڑائیوں کے بعد زیادۃ اللہ کو فتح حاصل ہوئی۔ اور منصور بھاگ کر تونس چلا گیا۔ سرداران لشکر میں سے کئی افسروں نے ملک کے جس حصہ پر موقعہ پایا قبضہ کر لیا۔ انہی میں عامر بن نافع ارزق بھی تھا۔ جس نے علم بغاوت بلند کیا تھا۔ زیادۃ اللہ نے محمد بن عبداللہ بن اغلب کو ایک فوج دے کر عامر کے مقابلہ کو بھیجا۔ عامر نے اس فوج کو شکست دے کر بھگا دیا۔ غرض زیادۃ اللہ کے قبضے میں بہت ہی تھوڑا سا علاقہ رہ گیا۔ باقی سب مختلف سرداروں کے قبضے میں چلا گیا۔ مگر چند ہی روز کے بعد منصور اور عامر میں لڑائی ہو گئی اس حالت سے فائدہ اٹھا کر زیادۃ اللہ نے اپنی حالت کو درست کیا۔ اور دوبارہ اپنی طاقت کو بڑھایا۔ ادھر منصور عامر کے مقابلے میں مقتول ہوا۔ اور عامر نے تونس میں مقیم ہو کر اپنی الگ حکومت قائم کی۔ یہاں تک کہ ۲۱۴ھ میں عامر کا انتقال ہوا۔ ۲۱۸ھ میں زیادۃ اللہ کا تونس پر بھی قبضہ ہو گیا۔ اور دوسرے باغی سرداروں کو بھی اس نے مغلوب کیا۔ جزیرہ صقلیہ کی فتح جزیرہ صقلیہ (سسلی) میں قیصر قسطنطنیہ کی حکومت تھی۔ اور وہاں ایک گورنر قیصر کی طرف سے مقرر و مامور ہو کر آتا اور حکومت کرتا تھا۔ ۲۱۱ھ میں قیصر نے قسنطیل نامی بطریق کو صقلیہ کا حاکم مقرر کر کے بھیجا اس نے ایک رومی سردار کو امیر البحر بنایا جس کا نام فیمی تھا۔ فیمی نے ساحل افریقہ پر لوٹ مار مچائی اور اپنا رعب سمندر میں قائم کیا۔ مگر اسی زمانے میں قیصر نے گورنر صقلیہ کو لکھا۔ کہ تم اپنے امیر البحر کو گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دو۔ امیر البحر کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے جزیرہ صقلیہ میں داخل ہو کر شہر سرتوسہ پر قبضہ کر لیا۔ گورنر اور امیر البحر میں جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں گورنر کام آیا۔ اور امیر البحر فیمی نے تمام جزیرہ پر قابض ہو کر اپنی خود مختار سلطنت کا اعلان کیا۔ اور اپنے آپ کو بادشاہ کہلوایا۔ جزیرہ صقلیہ کے اس بادشاہ نے جزیرہ کے ایک حصہ کی حکومت پر بلاطہ نامی ایک شخص کو مامور کیا۔ بلاطہ کا ایک چچا زاد بھائی میخائیل بھی اس جزیرہ کے ایک حصے میں برسر حکومت تھا۔ ان دونوں چچا زاد بھائیوں نے مل کر امیر البحر فیمی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اور متعدد معرکہ آرائیوں کے بعد سرقوسہ پر قابض و متصرف ہو گئے۔ فیمی شکست کھا کر اور جزیرہ کو چھوڑ کر جہازوں میں آ گیا اور امداد حاصل کرنے کے لیے زیادۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زیادۃ اللہ نے قیروان کے قاضی اسد بن فرات کو ایک فوج دے کر صقلیہ کے بادشاہ فیمی کے ساتھ کر دیا۔ جزیرہ صقلیہ پر سب سے پہلے مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہt کے عہد خلافت میں عبداللہ بن قیس فزاری کی سرداری میں فوج کشی کی تھی۔ لیکن یہ فوج کشی ایک وقتی حملہ تھا۔ جس سے رومیوں کو مرعوب کرنا مقصود تھا۔ یہ حملہ ۳۳ھ میں ہوا تھا۔ پھر ۸۵ھ میں موسیٰ بن نصیر وائسرائے افریقہ نے بھی اسی قسم کی فوج کشی اس جزیرہ پر کی تھی۔ پھر ۱۰۲ھ میں خلیفہ یزیر بن عبدالملک کے ایک سردار محمد بن ابو ادریس انصاری نے جزیرہ صقلیہ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد بشر بن صفوان کلبی نے ۱۰۹ھ میں خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے عہد خلافت میں صقلیہ پر حملہ کیا ان تمام حملوں میں مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوئیں۔ اور وہ صقلیہ سے بہت سے قیدی اور مال غنیمت لے لے کر واپس ہوئے۔ ۱۱۰ھ میں عبیدہ بن عبدالرحمن قیسی وائسرائے افریقہ کے ایک سردار مستیز بن حرث نے صقلیہ پر فوج کشی کی۔ مگر سمندر میں طوفان کے برپا ہونے اور