تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوک خان جب اوکتائی خان کا انتقال ہوا۔ تو اس کا بیٹا کیوک خان قراقورم میں موجود نہ تھا۔ مغلوں نے اپنے دستور کے موافق اوکتائی خان کی بیوی تورکینا خاتون کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ تاکہ کیوک خان کے آنے تک نظام سلطنت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو۔ جب کیوک خان قراقورم میں آیا۔ تو اس نے مغلوں کے دستور اور تورہ چنگیزی کے موافق تخت سلطنت کے متعلق کچھ نہ کہا اور معمولی حیثیت سے رہا۔ سلطانہ تورکینا خاتون نے خود تمام ملکوں میں دعوت نامے بھیجے اور دنیا کے سلاطین کو مدعو کیا۔ چنانچہ خراسان‘ ایران‘ قبچاق‘ روم‘ بغداد‘ شام وغیرہ ملکوں سے سلاطین کے ایلچی قراقورم میں آئے۔ چنگیز خان کی اولاد تو تمام موجود ہو ہی گئی۔ بغداد کے خلیفہ نے اپنی طرف سے اس مجلس کی شرکت کے لیے قاضی القضاۃ فخر الدین کو بھیجا۔ خراسان سے امیر ارغون بھی آیا۔ روم سے سلطان رکن الدین سلجوقی اور الموت و قہستان سے شہاب الدین و شمس اور یورپ کے عیسائی بادشاہوں کی طرف سے بھی ایلچی آئے۔ مسلمان سرداروں کے لیے دو ہزار بڑے خیمے کھڑے کیے گئے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کیسا عظیم الشان مجمع ہو گا اس کے بعد مجلس منعقد ہوئی اور بادشاہ کے انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا۔ سب نے کیوک خان کو منتخب کیا۔ منکو خان پسرتولی خان نے کیوک خان کو ہاتھ پکڑ کر تخت پر بٹھایا اور تاج شاہی سر پر رکھا۔ کیوک خان کی بیوی ایک عیسائی عورت تھی۔ اس لیے یورپ کے عیسائی ایلچیوں کی خوب خاطر مدارات کی گئی۔ باطنیوں کے ایلچیوں کو کیوک خان نے ذلت کے ساتھ نکال دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہ مدارات سے پیش آیا۔ مگر عیسائیوں نے کیوک خان کے مزاج میں دخیل ہو کر اس کو مسلمانوں کی طرف سے متنفر کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ کیوک خان سے ایک روز فرمان لکھوایا کہ مسلمانوں کے قتل کرنے اور ان کا نام و نشان دنیا سے مٹا دینے کے لیے تمام سردار آمادہ و مستعد ہو جائیں۔ اس حکم کو لکھوا کر وہ جب باہر نکلا تو اس کے شکاری کتوں نے یکایک اس پر حملہ کیا اور اس کے خصیتین کو چبا ڈالا۔ کیوک خان کتوں کے اس حملہ سے مرا تو نہیں۔ مگر سخت زخمی ہوا۔ اور عیسائیوں کو اس کے بعد مسلمانوں کی مخالفت میں لب ہلانے کی جرأت نہ رہی۔ عام طور پر شہرت ہو گئی۔ کہ مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ ہونے کی سزا میں کیوک خان کو شکاری کتوں سے زخمی ہونا پڑا۔ کیوک خان کی موت چند روز کے بعد کیوک خان سمر قند جا کر فوت ہو گیا۔ جس زمانے میں اوکتائی خان زندہ تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی تولی خان جو چنگیز خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ بھائی کے پاس رہتا۔ اور اس کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ تولی خان کو اوکتائی خان کے ساتھ بہت محبت تھی۔ ایک مرتبہ اوکتائی خان بیمار ہوا تو تولی خان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ کہ الٰہی میرے بھائی کو بچا دے‘ اور اگر اس کی موت کا زمانہ آ گیا ہے تو اس کی جگہ مجھ کو اٹھا لے۔ چنانچہ اسی روز سے اوکتائی خان تندرست اور تولی خان بیمار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ اوکتائی خان بالکل تندرست ہو گیا۔ اور تولی خان مر گیا۔ تولی خان کے چار بیٹے تھے۔ منکو خان قویلا خان‘ ارتق بوقا‘ ہلاکو خان‘ ان چاروں بھتیجوں کو اوکتائی خان بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس کے بعد کیوک خان بھی اپنے ان چچا زاد بھائیوں کے ساتھ بہت رعایت و مروت مرعی رکھتا تھا۔ کیوک خان کی وفات کے بعد خاندان چنگیزی میں باتو